اہل علم فرماتے ہیں کہ عاشورہ ٔ محرم کو اللہ تعالیٰ نے دس نبیوں ؑ پر دس کرامتوں کا انعام فرمایا۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر رُکی ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی اور فرعون غرقآب ہوا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی دن وہ آسمان پراٹھائے گئے۔حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے خلاصی ملی اور اسی دن ان اُمت کا قصور معاف ہوا۔حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں سے نکا لے گئے، حضرت ایوب علیہ السلام کوبیماری سے صحت حاصل ہوئی،حضرت ادریس علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور آپ ؑ کے لئے نمرودی آگ سراسر گلزار ہوئی۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک و سلطنت عطاہوئی۔
اسلامی سن ہجر ی کے آغاز کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں ، جمہور مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سن ہجری کا باقاعدہ آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں۲۰ جماد ی الثانی بروز جمعرات ۱۷ ھ کو عمل میںہوا۔ سید نا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے اسلامی کلینڈر کا شما ر واقعہ ہجرتِ مدینہ کی بنیاد قرار پایا، جب خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے محرم الحرام کو نئے اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔ واضح ہو اسلام کی تاریخ میں واقعہ ہجرت نبویؐ کی کلیدی اہمیت ہے۔ تاریخ شاہد عادل ہے کہ جب پیغمبر آخرالزمان ﷺ اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر مشرکین ِمکہ کے ظلم و جبر کی انتہاہوئی تو آپ ؐ کو پہلے مظلوم مسلمانو ں کو مدینہ نقل مکانی کر نے کا حکم دینے کو کہا گیا اور آخر پر سید المرسلین ﷺکو خودبھی ہجرتِ مدینہ کا حکم ملا۔ ہجرت کا حکم پاتے ہی سرکار دوجہاںﷺاپنے یار غارسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پرپہنچے اور انہیں بھی ہجرت کے حکم سے آگاہ فرمایا۔ ہجرت کے بعد اسلام کا موسم بہار شروع ہوا ۔ مزید برآںمحرم الحرام کا ابتدائی عشرہ اپنے دامن میں رنج وغم کی ایک صدمہ خیز داستان سموئے ہوئے ہے۔ ا س کے ساتھ ہی یکم محرم الحرام کو امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے جب کہ عاشورئہ محرم۶۱ ہجری میں نواسہ رسول رحمت ﷺ جگر گوشہ امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰ و سیدنا فاطمتہ زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماحسین ابن علیؓ اور ان کے بہتر نفوس قدسیہ کی میدان کربلا میں شہادت کا المیہ وقوع پذیر ہو ا۔ یہ واقعہ رنج و غم اور ظلم و ستم کی داستان ہے اورحق و باطل کا تاریخ ساز معرکہ ہے۔یہ ناحق کے خلاف ہمت و شجاعت ، تسلیم و رضا اور ایثارو قربانی کے ناقابل تسخیر جذبے سے سینہ سپر ہونے کا وہ پیغام ہے جس کی اہمیت روز آخر تک کم نہ ہوگی۔ جب تک دنیا میں حق وصداقت کی بات ہوگی ، شہدائے احد اور شہدائے کربلا ؓ کا تذ کرہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ کی سیرت مبارک سے براہ راست دل کی دنیا متاثر ہوتی ہے ، خاص کر واقعہ کربلا سننے یا پڑھنے سے سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت وعظمت دل و جان میں اور بڑ ھ جاتی ہے ، جب کہ اُن لوگوں سے نفرت دل کی اتھاہ گہرائیوں میں پیدا ہوجاتی ہے جو ظالم وجابر بن کر معصومان ِکربلا کوبے دریغ شہید کرتے رہے ۔ نواسئہ رسول امام حسینؓ چاہتے تو وقت کے ظالم حکمران یزید سے صلاح سمجھوتہ کرکے آرام سے اپنی زندگی گزارسکتے تھے مگر انہوں نے حق وصداقت اور ایمان وایقان کی مشعل فروزاں کرنے کیلئے اپنی اور اپنوں کو قربان کیا۔ نواسہ رسول امام حسین ؓ سے یزیداپنی باطل حکومت کی تائید میں بیعت مانگ رہاتھا تاکہ ا س کی ملوکیت کو ملت میں سند ِ اعتبار ملے مگر سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کو ایسے دوراہے پر نہ صرف اسلام کے تقاضوں پر گہری نظر تھی بلکہ یزید کے تمام منفی حالاتِ زندگی بھی معلوم تھے۔ آپ ؓ سے یہ کیسے ممکن تھا کہ ناحق کی امامت ایک سیکنڈ کے لئے بھی قبول کر تے کیونکہ امام حسین ؓ تو تربیت رسول رحمت ﷺ کے پروردہ تھے، انہوں نے ایسے مشکل حالات میں وقت کی نزاکتوںاور اسلام کو درپیش چلنج پر برمحل اجتہاد کر کے اپنا سب کچھ کلمۂ حق کی سر بلندی کے لئے قربان کر نے کا تہیہ کیا تاکہ دین کا کلمہ اور پرچم اُونچا رہے ۔ ان معنوں میں کرب وبلا کا معرکہ عالم اسلام کے لئے تاقیام قیامت باطل کے خلاف صف آراء ہونے کا عظیم درس ہے، چاہے حالات موافق ہوں یا موافق ۔ واقعہ کربلا نے حق اور باطل کے درمیان اسی تابندہ تاریخ کا اعادہ کیا جو بدرو احداور حنین میں خون آشام ٹکراؤ کے دوران پیغمبر کریمؐ اور جان نثار صحابہؓ نے اپنی قربانیوں سے مرتب کی ۔ میدان کربلا میںحق و صداقت کے علم بردارسیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پاک خون سے ایک ایسی شمع روشن کی جس کی روشنی میں حق پرستوں کے قافلے آگے بڑھتے رہیں گے اور اسلام اور انسانیت ہمیشہ سر بلند ہوتی رہے گی۔
بلاشبہ جب بد بختی کسی قوم کا مقدر ہو جاتی ہے تو اس کی آنکھوں پر غفلت وجہالت کے پردے پڑجاتے ہیں اور دلوں پر مہریں لگ جاتی ہیں، پھرحق دیکھنے اور حق سمجھنے کی صلاحیت اس میںختم ہوجاتی ہے۔ کوفیوںکو معلوم تھا سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون ہیں پھر بھی اتمامِ حجت کے لئے امام حسین ؓ کوفی لشکر کے سامنے تن تنہا گئے اور بآواز بلند اُن سے خطاب کیا : لوگو !تم میں سے ہر ایک شخص جو مجھ سے واقف ہے اور ہر ایک وہ شخص بھی جو مجھ کو نہیں جا نتا ، اچھی طرح آگاہ ہوجائے کہ میں آنحضرت ﷺ کا نواسہ اور حضرت علیؓ کا بیٹا ہوں ،حضرت فاطمتہ ؓ میری ماں اوراس فخرنسبتی کے علاوہ مجھ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو اور میرے بھائی حسنؓ کو جوانان جنت کا سردار بتایاہے۔ اگرتم کو میری بات کا یقین نہ ہو تو ابھی بھی رسول اللہ ﷺ کے بہت سے صحابیؓ زندہ ہیں ۔تم اُن سے میری اس بات کی تصدیق کرسکتے ہو۔کوفیوں نے میرے پاس مسلسل حظوط بھیج دئے کہ ہم آپ کو امامت کا حق دار سمجھتے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتے ہیں۔
چونکہ بد بختی اس قوم کی مقدر ہو چکی تھی، اس لئے یزیدی لشکرنے حسین ابن علیؓ کو پہچاننے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ عاشورہ کو وہ انتہائی ذلت آمیز اور صدمہ خیر کام کردیا جس کو یاد کر کے آج بھی زمین وآسمان لرزاٹھتا ہے ع
سرداد نہ داد دست در دست ِ یزید