ہندو پاک کے درمیان حالیہ کچھ برسوں سے خراب چلے آرہے سفارتی تعلقات کا خمیازہ حدمتارکہ کی عوام کو بھگتناپڑرہاہے جہاں روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتاہے جس سے پرانے زخم تازہ ہوجاتے ہیں ۔ان دنوں حدمتارکہ پر پونچھ سیکٹر میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان زبردست کشیدگی دیکھی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں جہاں شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں وہیں بس سروس اور تجارتی سلسلہ بھی منقطع ہوچکاہے ۔دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں کے استعمال اور شدید گولہ باری سے آرپار تباہی کی نئی داستانیں رقم ہوتی جارہی ہیں اور سرکاری ڈھانچوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ شہری آبادی کو بھی بری طرح سے متاثر ہوناپڑرہاہے ۔موجودہ صورتحال کسی جنگ کا نظارہ پیش کررہی ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کشیدگی میں کمی واقع ہونے کے بجائے روز بروز اضافہ ہی ہوتاجارہاہے ۔دونوں پڑوسیوں کے درمیان حالات میں کئی بار اتار چڑھائو آتارہاہے اور بات چیت کی میز سجانے کے ساتھ ساتھ جنگ و جدل کا ماحول بھی پایاجاتارہاہے لیکن موجودہ حالات تشویشناک کہے جاسکتے ہیں جن کی وجہ سے وہ سلسلہ بھی ٹھپ ہوگیا جسے تقسیم ریاست کے بعد اب تک اعتماد سازی کا سب سے بڑا نام دیاجاتاہے ۔واضح رہے کہ چار روز قبل حد متارکہ پر کھڑی کرماڑہ سیکٹر میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان شدید فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلے کا آغاز ہواجس کے نتیجہ میں چھٹی پر آیا ہوافوج کا ایک مقامی اہلکار اور اس کی اہلیہ لقمہ اجل بن گئے جبکہ تین لڑکیاں زخمی ہوئیں ۔یہ دونوں میاں بیوی مارٹرگولے کی زد میں آگئے اور ان کی موت موقعہ پر ہی واقع ہوئی جبکہ ان کی دو نوں بیٹیاں زخمی ہوکر ہسپتال پہنچ گئیں اور ہنستا کھیلتا پورے کا پورا گھر ہی اجڑ گیا ۔سرحدی کشیدگی کا یہ سلسلہ یہیں رکانہیں بلکہ اگلے روز چکاں دابا غ سیکٹر میں گولہ باری ہوئی جس کی وجہ سے ہر سوموار کو آر پار جانے والی بس سروس کوروکناپڑا اور کئی مہمان ،جنہیں رشتہ دار وں سے ملاقات کے بعد اپنے گھر پاکستانی زیر انتظام کشمیر جاناتھا،پونچھ میں درماندہ پڑے ہوئے ہیں جبکہ اسی طرح سے کئی لوگ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں حالات ٹھیک ہونے کا انتظار کررہے ہیں ۔اتنا ہی نہیں کہ منگل اور پھر بدھ کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سلسلہ بھی معطل کرناپڑا اور گولہ باری سے چکاں داباغ ٹریڈ سنٹر کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ۔اگرچہ خوش قسمتی سے مزید کوئی جانی نقصان نہیں ہو االبتہ دونوں ممالک کی افواج کی زور آزمائی نے بس سروس اور پھر تجارت کو منقطع کراکے لوگوں کیلئے نئی پریشانیاں کھڑی کردی ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1999میں لاہور ۔دہلی بس سروس شروع کئے جانے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے طور پر جب 2005میں بس سروس اور پھر تجارت کے سلسلے کا آغاز ہوا،ان اقدامات سے تقسیم ریاست کے زخم سہنے والے لوگوں نے قدرے راحت محسوس کی تھی اور اب اس سلسلہ کو مزید توسیع دیئے جانے کی ضرورت ہے تاہم بدقسمتی سے ہندپاک کشیدگی اس کے آڑھے آرہی ہے ۔بدھ کو بھی شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع کے چوکی بل علاقہ میں فرکیاں سیکٹر میں پاکستان کی جانب سے سنیپر فائر کا استعمال کرکے دو بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیاگیا اور یوں سرحدی کشیدگی کا دائرہ مزید وسیع ہوکر کشمیر تک پہنچ گیاجس کے نتیجہ میں آنے والے ایام میں سرحدوں پر سکون لوٹ آنے کا کم ہی امکان ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک جنگ و جدل کے ماحول سے باہر نکل کر آر پار کے لوگوں کو امن و سکون سے زندگی بسر کرنے کا موقعہ فراہم کریں کیونکہ مستقل کشیدگی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور اس سے دیگر ممالک تو فائدہ اٹھائیںگے لیکن نہ ہی ہندوستان کا بھلا ہوگا اور نہ ہی پاکستان کو فائدہ پہنچ سکے گا۔بات چیت ہی مسائل کا واحد حل ہے ۔بھارت اور پاکستان کو سمجھنا چاہئے کہ مسلسل کشیدگی سے ماحول مزید بگڑ سکتا ہے اور نتیجہ کے طور پر مزید جانی و مالی نقصان ہونا طے ہے ۔اس لئے بہتر ی اسی میں ہے کہ سرحدوں پر سکوت غارت کرنے کی بجائے سرحد ی آبادی کو سکون فراہم کیاجائے گا اور سرحدوں سے دو ر دارالحکومتوں میں مذاکرات کے میز سجاکر افہام و تفہیم کا راستہ اپنا یا جائے تاکہ پر امن ماحول میں تنازعات کا حل نکالاجاسکے جو دونوں ممالک کے مفاد میں ہے ۔