سانبہ سے لیکر پونچھ تک بین الاقوامی سرحد اور حدمتارکہ پر بدھ کے روز سے شروع ہونے والی کشیدگی ختم ہونے کا نام نہیںلے رہی اور سرحدی علاقوںکے لوگوں کو عملاًجنگ کی صورتحال کا سامناہے ۔سرحدی علاقوںمیںپچھلے کئی دنوںسے سکول بند ہیں اور کاشتکاری سمیت دیگر تمام قسم کی سرگرمیاں ٹھپ پڑی ہیں ۔ حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ ہزاروں لوگوں کو گھروںسے محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے یاپھر گھروں کے اندر ہی ایسی قید کاٹ رہے ہیںکہ کسی مریض یا زخمی کو ہسپتال منتقل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں ۔ویسے تو پچھلے کئی ماہ مسلسل سرحدی کشیدگی میں ہی گزرے ہیں اور دونوںممالک کی افواج نے جب چاہا تب ایک دوسرے کی چوکیوںکو بھی نشانہ بنایا، جس کے ساتھ عام شہری آبادی والے علاقوںمیں بھی فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے کئی جانیں تلف ہوئیں اور بہت بڑی تعداد میںلوگ زخمی ہوئے، لیکن جو بُرا حال پچھلے پانچ روز سے ہے ،وہ اس حالیہ کشیدگی کے دوران کبھی دیکھنے کو نہیں ملا اور یہ صورتحال ایک جنگ کا منظر پیش کررہی ہے ۔حالات کااندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ دو روز قبل مینڈھر کے بالاکوٹ سیکٹر میں ایک عام شہری جب فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بن کر زخمی ہواتو اسے ہسپتال منتقل کرنے کیلئے کئی گھنٹے لگے کیونکہ محکمہ صحت و مقامی لوگوںکو اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ وہ اسے شفاخانہ پہنچاتے ۔یہی حال دیگر سرحدی دیہات کا بھی ہے، جہاں لو گ بے یارو مددگار بن کر آگ کی شدت سے بھی تیز برستی گولیوں کے سائے میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔اس کشیدگی کی وجہ سے سرحد کے دونوں حصوں کے عام لوگ متاثر ہورہے ہیں اور ان کا امن و سکون لٹ چکاہے ۔دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے پر طاقت آزمائی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مات دینے کی ہرممکن کوشش کررہی ہیں اور ایک دوسرے کی چوکیوں اور سرجیکل سٹرائیکس سے ہلاکتوں کے دعوے کئے جارہے ہیں لیکن اس صورتحال کے نتیجہ میں عام شہریوں پر کیا کچھ گزر رہی ہے ، یہ وہی لوگ جانتے ہیں جو سرحد کے قریب رہائش رکھتے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تازہ کشیدگی ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب دونوںممالک کی افواج کے سربراہان کی طرف سے ایک دوسر ے کے خلاف تند وتیز بیانات دیئے گئے ۔اب تک سرحد کے دونوں طرف درجنوں ہلاکتیں پیش آئیں، جن میں عام شہری اور فوجی بھی شامل ہیں۔ تاریخ کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں اور نہ ہی کوئی جنگ سے کوئی فتح حاصل کی جاسکتی تھی ۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تاریخی اعتبار سے کئی بھیانک جنگیں ہوئیں لیکن بالاخر دونوں ممالک کو امن کی میز پر بیٹھنا پڑا، کیونکہ ان جنگوں سے دونوں مملکتوں کی معیشتوں کو بے بناہ نقصان ہوا، لیکن سرحدی جغرافیہ میںکوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور عام لوگوں کو ہر بار اس کشیدگی کا خمیازہ بھگتناپڑتاہے ۔دونوں ممالک کی سیاسی و فوجی قیادت کو یہ سمجھناہوگاکہ مسائل کے حل کیلئے انہیں مذاکرات کاراستہ ہی اختیار کرناپڑے گا اور دیرسویر انہیں ایک جگہ مل کر بیٹھناہی پڑے گا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرحدوں کو امن کے خطوں میں تبدیل کیاجائے اورجنگ و قتال کے ماحول سے نکلنے کے اقدامات کئے جائیں جس کیلئے بدقسمتی سے ابھی تک کوئی بھی فریق تیار نہیں اور دونوں طرف سے دھونس دھمکیوںسے کام لیاجارہاہے ۔ سرحدی مکینوں پر رحم کھاکر اس کشیدگی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کیاجائے اور لازماًطور پرکئی دہائیوںسے چلی آرہی اس کشیدگی کی جڑ یعنی مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی سمت اقدامات کئے جائیں اور خاص طور پر موجودہ حالات میں سیاسی جماعتیں اس انسانیت سوز صورتحال سے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی بجائے بنیادی مسائل پر توجہ دے کر لوگوں کے لئے اس جہنم زا صورتحال سے نجات کی کوشش کریں۔