سرحدی متاثرین کو امداد فراہم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے جارہے ہیں اور خاص طور پر مرکزی حکومت کی طرف سے ہر قسم کی یقین دہانیاں دی جارہی ہیں لیکن ان متاثرہ لوگوں کی کس قدر خدمت کی جارہی ہے ،یہ بات گزشتہ دنوں تب عیاں ہوگئی جب بالاکوٹ کے دھار گلون علاقے میں ایک مارٹر شیل کی زد میں آکر زخمی ہونے والی لڑکی کو راجوری سے گورنمنٹ میڈیکل کالج و ہسپتال جموں منتقل کرنے کیلئے اس کے گھر والوں کو ایمبولینس ڈرائیور کو 2700روپے دیناپڑے ۔اس واقعہ کے بعد جہاں سماجی روابط کی ویب سائٹوں پہ اس واقع پر زبردستبحث چھڑ گئی وہیں انتظامیہ اور محکمہ صحت کی طرف سے بھی اپنے عذرات پیش کئے گئے، لیکن افسوسناک طور پر یہ امر بھی سامنے آیاکہ اب تک حکومت یا محکمہ صحت کے پاس سرحدی کشیدگی کے دوران زخمی ہونے والوں کو بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کیلئے نہ ہی تو کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی محکمہ کے پاس اس مقصد کیلئے فنڈ دستیاب ہیں ۔یہی نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے بھی اس سلسلے میں ہنوز کوئی ہدایت نہیں دی گئی اور یہ مقامی افسران پر ہی منحصر ہے کہ وہ زخمیوں کو ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعہ مفت میں بڑے ہسپتالوں کو منتقل کرنے کے لئےان سے پیسے وصول کریں یاپھر ایمبولینس خدمات ہی فراہم نہ کی جائیں ۔واضح رہے کہ سترہ سالہ لڑکی کو راجوری سے جموں منتقل کرنے کیلئے ایمبولینس ڈرائیور نے اس کے رشتہ داروںسے تیل کے نام پرپیسے وصول کرلئے اور تب تک گاڑی چلانے سے انکار کردیاجب تک کہ اسے رقم نہیں دی گئی۔یہ حالات ایسے وقت پر سامنے آرہے ہیں جب حد متارکہ پر جنگ کا سماں ہے اور آئے روز فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجہ میں شہریوں کےزخمی ہونے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ، جنہیں مقامی سطح پر علاج معالجہ کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراًجموں منتقل کرناپڑتاہے ۔ جب تازہ معاملہ سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر اجاگر ہوا اور لوگوں نے محکمہ صحت کی کھل کر مذمت کرناشروع کی تو حکام نے پہلے تو یہ عذرلنگ پیش کیاکہ زخمی لڑکی کو رات کے وقت منتقل کیاگیا اور راستے میں گاڑی کا تیل ختم ہوگیا لیکن تب ڈرائیور کے پاس پیسے نہیں تھے اس لئے اس نے زخمی لڑکی کے گھر والوںسے پیسے لئے ،جو انہیں واپس کردیئے جائیںگے ۔ساتھ ہی یہ جواز پیش کیاگیاکہ سٹیٹ ہیلتھ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی طرف سے راجوری سے جموں کیلئے ایمبولینس کے اخراجات 2700روپے متعین کئے گئے ہیںاور اس واقعہ میں بھی ایمبولینس ڈرائیور نےاسی قدر رقم وصول کی ہے،جو ضوابط کےعین مطابق ہیں۔تاہم دوسرے ہی روز محکمہ کی طرف سے اس سلسلے میں تحقیقات کا حکم جاری ہوا اور ایمبولینس ڈرائیور کو اٹیچ کرنے کے ساتھ ساتھ میڈیکل سپرانٹنڈنٹ راجوری ہسپتال سے اس بات کا جواب طلب کیاگیاہے کہ کیوں گاڑی میں تیل کا بندوبست نہیں کیاگیا ۔اب محکمہ صحت ڈرائیور کے خلاف کارروائی کرے ، مضروب لڑکی کے گھروالوں کو پیسے لوٹائے یا پھر تحقیقات کرکے کسی افسر کو بھی ذمہ دار ٹھہرائے لیکن اس سارے معاملے نے حکام کی سرحدی کشیدگی کے دوران پید اہونے والے حالات سے نمٹنے کیلئے کی جارہی تیاریوں کے دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور یہ ظاہر ہوگیاہے کہ جس طرح سے سرحدی کشیدگی کوختم کرنے کے معاملے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاجارہاہے ٹھیک اسی طرح سے متاثرین کو امداد کی فراہمی میں بھی انتہائی درجہ کی لاپرواہی برتی جارہی ہے۔ ورنہ آج تک اس اہم معاملے پر یقینا حکومت اور انتظامیہ نے سوچاہوتا اور محکمہ کو شرمندگی کا سامنا نہیں کرناپڑتا۔ریاستی اور مرکزی حکومت کو سرحدی متاثرین کے تئیں اس قدر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرناچاہئے اور ان کو ان مصائب و آلام سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات دلانے کے اقدامات کئے جائیں جو انہیںروز مرہ سہناپڑتے ہیں ۔