ہندوپاک سرحدی کشیدگی کے باعث سرحد کے مکینوں کو ہر روز نت نئے مسائل اور مشکلات کاسامنا ہوتاہے ۔حالیہ کچھ مہینوںسے حد متارکہ پر دوطرفہ فائرنگ اورگولہ باری سے راجوری کے سندر بنی سے لیکر پونچھ کے ساوجیاں سیکٹر اور اوڑی ،کیرن و کرناہ کے لوگ بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں ۔ اس دوران کئی قیمتی جانیں بھی تلف ہوئیں جبکہ بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور ان کے مال مویشی اور املاک کو بھی نقصان پہنچا۔پہلے تو مرکز ی حکومت نے ان متاثرہ کنبوں کے تئیں آنکھیں موندھ رکھیں نہ ان کی جان ومال کی حفاظت کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام کیاگیا اور نہ ہی وہ وعدے پورے کئے گئے جو اکثر الیکشن مہموںکے دوران کئے جاتے ہیں تاہم اب جب وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ ریاست کے دورے پر آئے تو انہوںنے سرحدی متاثرین سے ہمدردی جتانے کیلئے نوشہرہ سیکٹر کا دورہ کیا۔ لیکن جہاں اس دورے میں انہوںنے کوئی خاص اعلان نہ کرکے نوشہرہ کے متاثرین کو مایوس کر دیا وہیں موصوف نے اس طویل دورے کے دوران ریاست کے بقیہ سرحدی علاقوں میں بھی جانے کی زحمت نہ کی، جس کی وجہ سے ان علاقوں کے عوام کو سخت مایوسی ہوئی ہے۔ماضی میں بھی یہ دیکھاگیاہے کہ ریاست یا مرکز کی طرف سے جب بھی کوئی صاحب اختیار شخصیت سرحدی متاثرین سےاظہارِ ہمدردی کےلئے اس علاقہ میں پہنچتی ہے ۔تو اس کا دورہ نوشہرہ تک ہی محدود رہتا ہے۔ایسا کیوں ہے ؟ا س کا جواب ریاستی حکومت کو تلاش کرنا چاہئے۔سرحدی متاثرین چاہے وہ سند ربنی کے ہوں ، نوشہرہ کے ہوں ، بالاکوٹ کے ہوں ، منجاکوٹ ، منکوٹ ، ساوجیاں ، شاہپور ، دیگوار یا پھر اوڑی ، کیرن یا کرناہ کے ہوں ، سبھی کے مسائل و مشکلات یکساں ہیں اور سبھی جان و مال کی فکر میں ہمیشہ لٹکے ہوئے ہوتے ہیں۔ہر ایک علاقے کے متاثرین کے ساتھ یکساں سلوک کیاجاناچاہئے اور انہیں ایک نظر سے دیکھاجاناچاہئے جس کا اب تک فقدان نظر آیاہے ۔ یہاںبالاکوٹ اور دیگر علاقوں کے لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھانا حق بجانب ہے کہ جب بھی مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی کارندہ آتاہے تو اس کی آخری حد نوشہرہ ہی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگے بڑھ کر نہیں دیکھتا۔خاص طور پر مقامی لوگ بھاجپا لیڈر شپ سے اس بات پر بہت زیادہ خفا ہیں جس نے نوشہرہ کو ہی اپنی سرگرمیوں کا مرکزبنارکھاہے ۔نوشہرہ کو دی جارہی اہمیت کا نتیجہ ہی ہے کہ اس علاقے میں انتظامیہ کی طرف سے پہلے مرحلے کے تحت پختہ بنکر تعمیر کرنے کا کام شروع کردیاگیاہے جبکہ دیگر علاقوں میں ایسی کوئی سرگرمی ابھی تک دکھائی نہیں دی ۔متاثرین کا تعلق چاہے کسی بھی علاقے سے ہو ،ان کے ساتھ یکساں سلوک کیاجائے اور ان میںمذہب وفرقہ کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ کی جانی چاہئےکیونکہ جب سرحد پر فائرنگ اور گولہ باری ہوتی ہے تو وہ کسی کو نشانہ بنانے سے پہلے یہ نہیں دیکھتی کہ اس کا کیا مذہب ہے ۔حالیہ کشیدہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہر ایک علاقے میں ایک جیسی تباہی ہوئی ہے اور جہاں نوشہرہ میں انسانی ہلاکتیں ہوئیں وہیں پونچھ کے کئی سیکٹروں میں بھی شہری مارے گئے اور لوگوں کو بے گھر ہوناپڑا۔اس لئے حکومت کو سبھی کو ایک نظر سے دیکھناچاہئے اورہندوپاک کشیدگی سے پیدا ہونے والی اس المناک صورتحال سے لوگوں کو باہر نکالنے کے سدباب کئے جانے چاہئیں جس کی خاطر ابھی تک ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔