ہندوپاک کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران پیدا شدہ حالات سےاس بات کا بخوبی احساس ہوتاہے کہ حد متارکہ پر رہنے والے لوگوں کی دونوں ممالک اور مقامی انتظامیہ کے سامنے کوئی قدر و قیمت نہیں اور انہیں مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیاہے ۔سرحدی مکین مریں یا جئیں یاپھر گھٹ گھٹ کر زندگی گزاریں ،اس سے حکام کوکوئی سروکار نہیں اور سیاسی قیادت کی طرف سے بھی دکھ ، تشویش اور تعزیت پرسی سے بڑھ کر کوئی اقدام نہیں کیاجاتا۔ جنگی حالات میں طبی امداد بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن حد متارکہ پر رہنے والوں کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی دوران شب فائرنگ یا شیلنگ کے تبادلہ کے دوران زخمی ہوگیا تو اسے ہسپتال منتقل کرنے کیلئے دوسرے دن انتظامیہ اور پولیس وہاں پہنچتی ہے،بھلے ہی اس عرصہ میں مضروب شخص کی جان بھی کیوںنہ چلی جائے ۔بدقسمتی سے حد متارکہ پر موبائل فون کی خدمات میسر نہیں اور چند ماہ قبل حکومت نے ڈبلیو ایل ایل فون خدمات پر بھی بندش لگادی تھی ۔ اس پر ستم یہ کہ سندربنی سے لیکر پونچھ تک اور اسی طرح سے اوڑی سے لیکر کرناہ تک سرحدی علاقوں میں کہیں بھی کوئی ایسا ہسپتال قائم نہیں جہاں گولہ باری اور فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہونے والوں کا بروقت علاج کیاجاسکے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں علاج کیلئے جموں او رسرینگر کے ہسپتالوں میں منتقل کرناپڑتاہے ،جس کے دوران کئی لوگ خون بہہ جانے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل پونچھ کے مینڈھر بنلوئی علاقے میں فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آکر رات کے وقت تین افراد زخمی ہوگئے جو خوف کے سائے میں رات بھر تڑپتے رہے اور چونکہ نہ ہی ان کے موبائل فون کام کررہے تھے اور نہ ہی مقامی سطح پرکوئی ایمبولینس گاڑی دستیاب تھی لہٰذا انہیں اگلے روز ہسپتال منتقل کیاگیا۔یہ واقعہ حد متارکہ کے مکینوں کے مصائب و آلام کا عکاس ہے اور اسی سے ظاہر ہوتاہے کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کاشکارہونے والے کس قدر بے بسی کے شکار ہیں ۔سرحدی علاقوں میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی طرح کی کوئی بنیادی سہولت میسر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ انتظامیہ اور حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ کا اظہار کررہے ہیں ۔ حد متارکہ پر تو دور کی بات خطہ پیر پنچال کے سبھی سب ضلع اور ضلع ہسپتالوں میں بھی ماہر ڈاکٹر تعینات ہیں اورنہ ہی وقت پردوائیاں ملتی ہیں ۔ گزشتہ رو ز اسی بات پر بیوپار منڈل مینڈھر کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ کیاگیا اور مینڈھرکے سب ضلع ہسپتال میں طبی عملے کی تعیناتی کامطالبہ کیاگیا۔ یاد رہے کہ راجوری پونچھ اضلا ع میں طبی عملے کی 50فیصد سے بھی زائد اسامیاں خالی ہیں اور لوگوں کو معمولی سے علاج کیلئے بڑے ہسپتالوں کارخ کرناپڑتاہے لیکن عام حالات میں تو یہ مشکل برداشت کی جاسکتی ہے مگر تب مشکلات دو چند ہوجاتی ہیں جب جنگ کا ماحول ہو ۔حکام کی طرف سے بارہا یہ اعلانات کئے گئے کہ سرحدی عوام کو محفوظ مقامات پر پلاٹ فراہم کئے جائیںگے اور ان کی حفاظت کیلئے بنکر تعمیر کئے جائیں گے تاہم نہ ہی یہ بنکربن پائے اور نہ ہی ان کی محفوظ مقامات پر منتقلی ہوئی ۔ کم از کم اگر انہیں اس مشکل گھڑی میں طبی سہولیات ہی فراہم کردی جاتی تو یہ احساس ہوتاکہ انتظامیہ ان کی سلامتی کیلئے فکر مند ہے مگر بدقسمتی سے حد متارکہ کے مکینوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور انتظامیہ نے انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے ۔