ہندوپاک کشیدگی کا خمیازہ جہاں عام لوگوں کو بھگتناپڑرہاہے وہیں سرحدی علاقوں کے طلباء بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اورتعلیمی ادارے کئی کئی روز تک بند رہنے کے باعث ان کا مستقبل دائو پر لگاہواہے ۔پچھلے کئی دنوںسے حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد کے پانچ کلو میٹر کے اندرپڑنے والے سینکڑوں تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں، جن کو حکام نے مزید کچھ دنوںتک بند ہی رکھنے کا فیصلہ کیاہے اور اب ان علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا سارا انحصار سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر ہے۔ جہاں فی الوقت تباہی و بربادی کا سامناہے اور کوئی ایسا دن نہیں گزرتاجب کوئی شہری یا فوجی ہلاکت واقع نہ ہوتی ۔ بغور جائزہ لیاجائے تو سال بھر میں چند ماہ بھی سرحدی علاقوں میں درس و تدریس کی سرگرمیاں جاری نہیں رہتی اور ہر ہفتے سکول کھلتے اور بند ہوتے ہیں ۔ حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد کے قریب واقع سکولوں کے طلباء کو صبح گھر سے نکلتے وقت یہ معلوم نہیںہوتا ہےکہ سکول پورا دن کھلا بھی رہے گا یا نہیں اور وہ گھر وقت پر بحفاظت واپس پہنچیںگے بھی یا نہیں ۔خوف، بندوقوں کی برستی گولیوں اور مارٹر شلنگ کے سائے میںخوف کی زندگی بسر کرنے والے یہ طلباء کیا تعلیم حاصل کریںگے اور انکا مستقبل کیساہوگا ،اس بات کا اندازہ حالات کو دیکھ کر آسانی سے ہوجاتاہے ۔ یہ طلباء ایسے خطے کے مکین ہیں جوسال کے زیادہ تر ایام ہندوپاک افواج کے درمیان جنگ کا میدان بنارہتاہے اور انہیں اپنی تعلیم سے زیادہ جان کی فکر لگی رہتی ہے ۔انہیں جہاں سکول میں خوف ستاتارہتاہے وہیں گھر میں بھی گولہ باری اور فائرنگ کی فکر لاحق رہتی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرحدی علاقوں کے طلباء ایسے گھرانوںسے تعلق رکھتے ہیں جن کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں کہ وہکسی شہرمیں منتقل ہوکر اچھی تعلیم حاصل کرسکیں بلکہ وہ چاہ کر بھی اسی کشیدگی کے عالم میں درس و تدریس پر مجبور ہوتے ہیں جہاںکے حالات ان کی قابلیت کو متاثر کرتے ہوئےانکی ذہنی نشو ونما پر اثر انداز ہورہے ہیں۔افسوسناک بات ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے جنگ زدہ خطے کے ان طلباء کے مستقبل کی فکر نہیں کی اور نہ ہی انہیں امتحانات میں کبھی رعایت دی گئی ۔ ایسے حالات میں پلنے بڑھنے والے یہ طلباء آخرکیسے مسابقتی امتحانات میں دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے مقابلہ کر پائینگے اور انکی کوششوںکے نتائج کیسے ہوںگے ۔ سرکار کی طرف سے سرحدی طلباء کی تعلیم کے حوالے سے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی گئی جس سے اس بات کا اندازہ ہوتاہے کہ سرحدی عوام خاص طور پر نئی نسل کے تئیں حکومت کس قدر بے حسی کا شکار بنی ہوئی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں سرحدی آبادی کے دیگر مسائل حل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں اور ان کی حفاظت کیلئے بینکروں کی تعمیر سے لیکر متاثرین کی بازآبادکاری اور امداد کی فراہمی کیلئے پالیسیاں مرتب کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں وہیں ان طلباء کا بھی خیال کیاجائے جو پہلے تو ایسے عالم میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں انہیں نفسیاتی طور پر کئی طرح کی پریشانیوں کاسامناہے اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ سکول زیادہ تر ایام میں بند رہتے ہیں۔ بلاشبہ طلباء کی اس پریشانی کا حل سرحدی کشیدگی کا خاتمہ ہے لیکن جب تک دونوں ممالک کو یہ بات سمجھ آتی تب تک ان کیلئے کوئی ایسی پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ ان کی تعلیم بھی متاثر نہ ہو اور امتحانات میں بھی کچھ رعایت ملتی رہے ۔