ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا خمیازہ جہاں عام لوگوں کو بھگتناپڑتاہے وہیں سرحدی علاقوں کے طلاب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور تعلیمی اداروں کے کئی کئی دن تک بند رہنے کے باعث ان کا مستقبل تاریک بنتاجارہاہے۔پچھلے کچھ دنوں سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پرپہنچ چکی ہے اور جہاں سفارتی سطح پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اورہر اعتبار سے کمزو ربنانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں وہیں جنگی محاذ پر بھی دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے اورسرحدیں گرم ہیں، جہاںوقفے وقفے سے ہو رہی فائرنگ اور گولہ باری نے لوگوں کا ناک میںدم کر رکھا ہے۔اس کشیدگی کے باعث حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد کے پانچ کلو میٹر کے اند ر واقع تمام تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں اور موجودہ کشیدگی اور مذاکرات کے تمام تر راستے مسدود دکھتے ہوئے اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان اداروں کے پوری طرح سے کھلنے میں ابھی وقت لگے گاکیونکہ ان میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا انحصار کشیدگی کے خاتمے پر ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان جاری اس غیر اعلانیہ جنگ نے سرحدی طلباء کے مستقبل کو تاریک بنادیاہے اور دن شروع ہونے پرانہیں یہ تک معلوم نہیںہوتاکہ پورا دن سکول کھلا بھی رہے گا یا نہیںاور ان کے گھر واپس پہنچنے تک حالات کیا سے کیا ہوجائیں گے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرحدی خطوں میں واقع تعلیمی ادارے بار بار بند ہوتے اور باربار کھلتے ہیں اور مارٹر شیلوں ، برستی گولیوں اور خوف کے سائے میں طلباء کی تعلیم جاری رکھ پانا مشکل ہی ناممکن سی بات ہے ۔سرحدی علاقے بیشتر اوقات دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جنگ کا میدان بنے رہتے ہیں اور حالیہ دنوں اس کشیدگی میں اضافے نے نہ صرف طلباء بلکہ ان کے والدین کو بھی زبردست فکر مند کردیاہے کیونکہ انہی دنوں طلباء کے امتحانات ہورہے ہیں ۔دو پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی طلباء کی تعلیم کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی نشو ونما پر بھی اثر انداز ہورہی ہے جو ان کے مستقبل اور مجموعی طور پر ریاست کی نئی نسل کیلئے تباہ کن ہے ۔ کشیدگی کا خاتمہ کب ہوگا اور کب ہندوپاک قیادت آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کیلئے ذہنی طور پر آمادہ ہوں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکتاہے لیکن فی الوقت سرحدی طلباء کا تعلیمی نقصان ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے اور اسی کے نتیجہ میں ان کاآنے والا وقت پریشانیوں کا سبب بن سکتاہے ۔طبلِ جنگ بجانے اور ایک دوسرے کے خلاف طاقت آزمائی کرنے والوںکو آخر ان نونہالوں کے مستقبل کی فکر کرناہوگی جنہیں آگے اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہاہے اورجو اپنے اردگرد تعلیمی ماحول نہیں بلکہ روزانہ جنگی ماحول دیکھ رہے ہیں۔اول تو اس کشیدگی کے خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں اوراگر دونوں ممالک کو اسی طرح سے حالت جنگ میں ہی رہناہے تو پھر سرحدی طلباء کی تعلیم کیلئے کوئی متبادل انتظام کیاجاناچاہئے اور مقامی انتظامیہ و حکومت انہیں خوفناک ماحول سے نکال کر محفوظ مقام پر تدریسی عمل جاری رکھنے کا اہتمام کرے نہیں تو جنگ تو ایک نہ ایک دن ختم ہوہی جانی ہے مگر سرحدی طلباء کی پڑھائی کے یہ قیمتی دن لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے اور آگے چل کر ان کا دیگر طلاب سے مقابلہ کرپانا مشکل بن جائے گا۔