طارق شبنم
’’جنید بیٹا ۔۔۔۔۔۔ دروازہ بند کرکے کیوں بیٹھے ہو ،کچن میں آکے کھانا کھائو‘‘۔
’’اچھا ممی۔۔۔آیا‘‘۔
ماں کے دروازہ کھٹکھٹانے اورآواز دینے پر جنید نے ناگوار سے لہجے میں کہا۔
آج اتوار تھی اور جنید دن بھر گھر پر ہی بیٹھا تھا لیکن پورا دن اپنے کمرے سے باہر نہیں آیا ۔چند مہینوں سے جنید کا یہی معمول تھا ،وہ شام کو کام سے واپس آکر اپنے کمرے میں بیٹھ جاتا تھا جس وجہ سے اس کی ماںیہ سوچ کر سخت فکر مند ہوجاتی تھی کہ نہ جانے یہ اکیلے کمرے میں بیٹھ کر کیا کرتا رہتا ہے ۔
’’ بیٹا ۔۔۔۔۔۔تم اکیلے اکیلے کمرے میں بیٹھ کر کیا کرتے رہتے ہو ،کبھی اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی بیٹھ جایا کرو‘‘۔
جب وہ کھانا کھانے کچن میں داخل ہوگیا تو ماں نے پیار سے پوچھ لیا ۔
’’ ممی۔۔۔۔۔۔آپ کے پاس بیٹھ کے کیا کروں گا ،مجھے بہت کام ہوتے ہیں ،دکان کا حساب کتاب دیکھنا ہوتا ہے ،گاہکوں کے ساتھ بات کرنی ہوتی ہے ‘‘۔
اس نے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا ۔کام کے بارے میں سن کر اسکی ماں کو قدرے اطمینان ہواپھر بھی اس نے ماں کا فرض ادا کرتے ہوئے جنید کو کئی انمول نصیحتیں کیں ،جنہیں جنید غور سے سنتا رہا اور کھانا تناول کرنے کے فوراًبعد حسب معمول اپنے کمرے میں چلا گیا اور اس کی ماں سوچوں میں غلطاں و پیچاں ہو کر اس کی شادی کے حسین سپنے سجانے لگی ۔۔۔۔۔۔
جنید اپنے والدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا، با اخلاق اور اچھا خاصا ذہین بھی تھا، لیکن اچھے نمبرات سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد اس سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی جس کا اس کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ہوا یوں کہ ایک دن جنید کے موبائل فون پر کسی نامعلوم نمبر سے ایک پیغام موصول ہوا کہ لکی ڈرا کے ذریعے اس کے نام پر دو کروڑ روپے کی لاٹری نکلی ہے اور رقم حاصل کرنے کے لئے اس سے وہاں دئے گئے نمبر پر رابطہ کرنے کے لئے کہا گیا ۔ جنید نے رابطہ کیا تو دوسری طرف کسی سریلی اور معصوم سی آواز نے اس کا استقبال کیا اور اسے انعام جیتنے پر مبا رکباد دیتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو جتنی جلد ہو سکے اپنی آئی ۔ڈی ،بینک اکائونٹ اور پچاس ہزار روپے کیش اسی نمبر پر ٹرانسفر کریں۔جنید نے پچاس ہزار روپے مانگتے ہوئے ساری بات اپنی ماں کو بتائی،جس نے اگر چہ اس سے یہ سب کرنے سے منع کیا لیکن جنید کی ضد کے آگے آخر ہار مان لی اوربادل ناخواصتہ ہی پچاس ہزار روپے کا انتظام کر کے اُسے دیدیئے ۔اس نے آئو دیکھا نہ تائو اور رقم دئے گئے نمبر پر بھیج دی ۔کچھ دیر بعد ہی اس کو فون آیا اور رقم ملنے کی تصدیق کے ساتھ اسے جادوئی انداز بیان میں پورا طریقہ کار بتایا گیا اور ایک لاکھ روپے بطو ر ٹیکس جمع کرنے کے لئے کہا گیا ۔ایک لاکھ روپے کا سن کر وہ سخت پریشان ہوگیا لیکن مرتا کیا نہ کرتا، اس نے ساری بات ماں کو بتادی جس نے پریشان ہوکر اس کو بتایا کہ مجھے یہ کوئی بڑا فراڈ لگ رہا ہے اس لئے آپ پچاس ہزار کو ہی بھول جائو۔لیکن جنید جسے راتوں رات کروڈ پتی بننے کا سخت شوق تھا ،کہاں ماننے والاتھا ۔ اس نے خفیہ طریقے سے اپنے کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے والد کے نام پر قرض اٹھایااوراپنی موٹر سائیکل بیچ کر ایک لاکھ روپے مطلوبہ اکاونٹ میں ڈال دئے ۔ جس کے بعد انہوں نے مختلف تاویلات بتاکر اور رقم کا تقاضا کیا ۔جنید جو بری طرح سے جھال میں پھنس چکا تھا سخت پریشان ہوگیا اور ادھر اُدھر کرکے تیس ہزار روپے اور بھیج دئے ،جس کے بعد بھی انہوں نے اور پیسے مانگے ۔کل ملا کر اس نے مطلوبہ نمبر پر کم و بیش دولاکھ روپے ٹرانسفر کئے جس کے بعد بھی انہوں نے اور رقم کا تقاضا کیا لیکن اب کی بار جنید رقم کا کوئی انتظام نہیں کر سکا ۔دو دن تک اس نمبر سے لگاتار اس کو فون آتے رہے جس کے بعد وہ نمبر ہی بلاک ہو گیا ۔اس طرح جنید دولاکھ روپے سے ہاتھ دھوبیٹھا ۔اس واقعے کا جنید پر بہت گہرا اثر پڑا اور وہ سخت ذہنی دبائو کا شکار ہوگیا اور اس کے والدین کو اس کے علاج و معالجہ پر ہزاروں روپے خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طرف سے ادھار لی گئی رقم بھی چکانی پڑی ۔قریب ایک سال تک ذہنی دبائو اور بیمار رہنے کے بعد جب جنید ٹھیک ہو گیا تو والدین کے مشورے کے بعد جنید نے والدین سے کچھ رقم لے کر اور بینک سے قرضہ لے کر اپنا کاروبار شروع کیا ،جس کے کچھ عرصہ بعدا س کی منگنی بھی ہو گئی۔ اب وہ قریب ڈیڑھ سال سے اپنا کاروبار کر رہا تھا اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔
کچھ دن بعد جنید صبح حسب معمول دکان کے لئے نکلا لیکن قریب دوپہر کے وقت کچھ لوگ اس کے گھر پر وارد ہوئے اور اس کی ماں کو جنید کا پوچھنے لگے،جس نے انہیں بتایا جنید تو دکان پر ہے آپ لوگوں کو گھر آنے کی کیا ضرورت پڑی ،جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ بہت دنوں سے جنید کو ڈھونڈ رہے ہیں کیوں کہ ان کے لاکھوں روپے جنید کے پاس پھنسے ہوئے ہیں، پہلے وہ رقم لوٹانے میں آنا کانی کر رہا تھا اور اب کئی ہفتوں سے سرے سے ہی غائب ہو گیا جب کہ ہمارا سارا مال بھی اس نے بیچ دیا ہے ۔یہ نئی کہانی سن کر جنید کی ماں کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اس نے انتہائی نادم انداز میں معذرت مانگ کر قرض داروں سے کچھ دن کی مہلت مانگی اور ان کے جانے کے بعد سیدھے جنید کی دکان کا رخ کیا ۔کبھی بھری پری دکان اب خالی خالی نظر آ رہی تھی اور ہاںاداسی اور ویرانی بانہوں میں بانہیں ڈالے اونگ رہی تھی۔یہ سب دیکھ کراس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی اور وہ سخت بے چین ہوگئی ۔اس نے وہاں موجود ملازم سے جنید کے بارے میں پوچھا تو وہ سر کھجانے لگا اور کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پایا لیکن وہاں موجود دوسرے نیک دکاندار نے اسے جنید کی کالے کرتوتوں کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا کہ راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش نے جنید کے دل و دماغ کو بری طرح سے اپنے شکنجے میں کسا ہواہے اور یہ بھی صلاح دی کہ اس پرلگام کسی جائے ورنہ وہ بہت زیادہ تباہی کر بیٹھے گا ۔جنید کے بارے میں یہ سب سنتے ہوئے اُ سے لگا جیسے اس کے مُنہ میں زبر دستی کڑوی گولیاں ٹھونسی جارہی ہوں ، اس کے پورے وجود میں درد کی ایک تیز ٹیس بجلی کی سی رفتار میں دوڑ گئی،جنید کے بارے میں سجائے گئے اس کے سارے حسین خواب صابن کے بلبلوں کی طرح ٹو ٹ گئے اور وہ اپنا ریزہ ریزہ وجود لئے من من بھاری قدموں سے گھر کی طرف چل پڑی ۔
گھر پہنچ کر وہ پریشان حالات کے تانوں بانوں میں الجھی بے چینی سے جنید کے باپ کے آنے کا انتظار کرنے لگی ،جب وہ آیا تو اس نے روتے ہوئے جنید کے برے کارناموں کی تفٖصیل دے کر ا سے آگاہ کیا ۔وہ بھی اپنے بیٹے کی یہ اذیت ناک کہانی سن کر سخت پریشان ہوگیا اور غصے سے لال پیلا ہو کر اس کا انتظار کرنے لگا لیکن شام گئے تک جنید گھر نہیں آیا ۔جب اندھیرا گہرا ہوگیا تو ان کے آنگن کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔
’’ ذرا دیکھو تو آگیا وہ کمینہ ،آج میں اس سے وہ سبق دوں گا جو وہ ساری عمر یاد رکھے گا‘‘ ۔
دروازہ کھلنے کی آواز سن کر ذہنی خلفشار میں مبتلا جنید کے باپ نے غصے بھرے لہجے میں اپنی بیٹی سے کہا ۔اس نے دروازہ کھول کر آنگن میں دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا،پھر اس نے آنگن کی لائیٹ جلائی تو ایک دم اس کی چیخ نکل گئی کیوں کی جنید صدر دروازے کے پاس ہی بے ہوش پڑا تھا اس کا چہرہ زرد اور منہ سے رال ٹپک رہی تھی ۔اس نے جلدی سے اندر جا کر روتے ہوئے والدین کو جنید کی حالت کے بارے میں بتایا جنہوں نے بغیر وقت ضایع کئے اسے اسپتال پہنچایا جہاں اس کا علاج ومعالجہ شروع ہو گیا ۔
’’ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔ اب کیسا ہے میرا بیٹا ؟‘‘
ڈاکٹر جب کمرے سے باہر آیا تو جنید کی ماں نے اسے روتے ہوئے پوچھا۔
’’شکر کرو کہ و قت پر اسپتال پہنچ گیا ،ورنہ اس نے تو زہر کا ہائی ڈوز لیا تھا،انی وے ابھی وہ بے ہوش ہے لیکن خطرے سے باہر ہے ، آپ اندر جاکر اسے دیکھ سکتے ہیں ‘‘ ۔
ڈاکٹر نے کہا تو وہ اور اس کا شوہر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوگئے ۔
’’یہ چیزیں اس کے جیب سے نکلی ہیں‘‘۔
نرس نے اس کے سرہانے رکھے موبائل فون ،پرس اور کچھ کاغذات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
جنید کی ماں وہ چیزیں سنبھالنے لگی تو اچانک اس کی نظر ایک تازہ کا غذ پر پڑی اس نے غور سے دیکھا اور پڑھنے لگی ۔۔۔
’’میری پیارے ممی اور ڈیڈی۔۔۔۔۔۔
میں اپنے کئے پر بے حد شرمندہ ہوں ،میری وجہ سے آپ کو ہمیشہ دکھ پہنچا ہے ۔راتوں رات کروڑ پتی بننے کے نشے میںاپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے جس راستے پر چل نکلا وہ ایک سراب کے سوا کچھ نہیں تھا۔ میں نے آپ کی خون پسینے کی کمائی کوآن لائین جوے جیسے ڈریم الیون، رمی اور دیگر آن لائین گیمز کھیل کر ایک بار پھر تباہ و برباد کر دیا ،مجھ پر لاکھوں روپے کا قرض بھی ہے اور قرض داروں نے میرا جینا حرام کر رکھا ہے اب میرے پاس خود کشی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ،ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ۔۔۔۔۔۔
۔خدا حافظ‘‘۔
کی ماں ایک نظر خط کو تو ایک نظر بے سدھ پڑے جنید کو دیکھتی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا نے لگا اور موٹے موٹے آنسوں اس طرح سے ٹپکنے لگے جیسے موم کے گرم گرم قطرے قطار در قطا ٹپ ٹپ گر جاتے ہیں۔
���
اجس بانڈی پورہ(193502)کشمیر
[email protected]
موبائل نمبر؛9906526432