اسلام میں صبر اور درگزر کی بڑی کلیدی اہمیت ہے ۔ جن کمزوروںکو ستایا گیا، تکلیفیں دی گئیں، ان کو بدلہ لینے کے اخلاقی حق دینے کے باوجود اللہ تعالیٰ فرمایاکہ اور اگر بدلہ بھی لو تو اتنا ہی جتنی تمہیں تکلیف پہنچی ہواور اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔ اور تو صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ کی توفیق سے ہی ہے، اور ان پر افسوس نہ کر، اور ان کی وجہ سے تنگ نہ ہوجو وہ تدبیریں کرتے ہیں۔ (سورہ نحل آیت ۱۲۶ سے ۱۲۷)۔ دوسری جگہ فر مایا کہ: برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگذر کرے اور معاملے کو درست کر دے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتااور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں۔ الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کو تکلیف دینے والا عذاب ہو گااور جو صبر کرے اور قصور معاف کر دے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔( سورہ شوریٰ ، آیت ۴۰ تا ۴۳ )۔ اس کے علاوہ فرما یاکہ : اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کے لئے کھڑے ہونے والے، انصاف کی گواہی دینے والے ہو جائو، اور کسی قوم کی دشمنی تم کو اس پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو ، یہ تقویٰ سے قریب تر ہے، اور اللہ سے ڈرو، اللہ اس سے خبردار ہے جو تم کرتے ہو۔ (سورہ مائدہ آیت ۸) ۔دوسریجگہ فرما یاکہ : اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچّی گواہی دو خواہ یہ تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کے خلاف ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں کا زیادہ خیرخواہ ہے۔ پس تم خواہش ِنفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم لگی لپٹی بات کہو گے یا سچائی سے پہلوتہی کرو گے تو جان رکھو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔( سورۃ النسا ، آیت ۱۳۵) فرمان الٰہی ہے کہ نہ بنادیںمسلمان کافروں کو دوست مسلمانوں کو چھوڑ کر، اور جو کوئی یہ کام کرے تو نہیں اس کو اللہ سے کوئی تعلق مگر اس حالت میں کہ کرنا چاہو تم ان سے بچائو، اور اللہ تم کو ڈراتا ہے اپنے سے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تو کہہ اگر تم چھپائوگے اپنے جی کی بات یا اسے ظاہر کروگے، جانتا ہے اس کو اللہ، اور اس کو معلوم ہے جو کچھ کہ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورہ آل عمران آیت ۲۸ تا ۲۹)۔ دوسری جگہ فرمایا گیا کہ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کوتمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی، تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم
ہیں۔ (سورۃ ممتحنہ آیت ۸ تا ۹) ۔گرچہ کوئی بھی ایمان والا مسلمانوں کو چھوڑ کر کسی کافر کو اپنا دوست نہیں بنا سکتا، لیکن دین اسلام کے مطابق انسانی حقوق کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم برابر ہیں۔ غیر مسلموں کے حقوق کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے واضح کر دیاتھا کہ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی (مسلم ممالک میں رہنے والا غیر مسلم ) کا حق مارے گا تو قیامت کے دن وہمسلمان اپنے خلاف مجھے اس ذمی کے ساتھ کھڑا پائے گا۔ اسی لئے حضرت عمر فاروقؓکے دور میںذمیوں کی جان ومال کو مسلمانوں کی جان ومال کے برابر قراردیا گیاتھا۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کر ڈالتا تھا تو حضرت عمرؓ فوراً اس کے بدلے مسلمان کو قتل کرادیتے تھے۔ ذمیوں ک کے اندر مسلمانوں کے حسن سلوک کی وجہ سے جو اخلاص پیدا ہوگیا تھا ، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جنگ یرموک کے موقع پرجب مسلمان شہر حمص سے واپس لوٹنے لگے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کرکہا:’’جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے۔‘‘ اور عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ ’’خدا کی قسم تم ہم کو رومیوں کے بہ نسبت کہیں زیادہ محبوب ہو۔‘‘
شیطان افوہیںپھیلا کر بھی انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا نے کی کوشش کرتاہے، جس سے بچنے کی ضرورت ہے ۔ افواہوں سے بچنے کے لئے قرآن مجید میں ہے کہ اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اسے مشہور کر دیتے ہیں، حالانکہ اس کو اگر پیغمبر اور اپنے ذمہ داروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند آدمیوں کے سوا تم سب شیطان کے پیرو ہو جاتے۔ (سورہ النساء ، آیت ۸۳) ۔اس لئے جب تک کسی خبر کی حقیقت سامنے نہ آ جائے اس پر ردّ عمل سے بچیں اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ کوئی خبر ملے تو پہلے اس خبر کی تحقیق کے لئے اسے نائب رسولﷺ( یعنی حقیقی علمائے کرام) اور ملت کے ذمہ داروں کے پاس لے جائیں، اور تحقیق کے بعد ہی آگے کسی اور کو بھیجیں۔ اُمید ہے کہ اس دور کے مسلمان اگر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے افواہوں کی تحقیق کرا لیں گے اور احکام الٰہی پر عمل کریںگے تو انشاء اللہ تعالیٰ ملک میں ان کے لئے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ یہ علمائے کر ام اور دانشوروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو یہ سمجھائیں کہ معاشرے میں سدبھاؤنے کا عمل سیاست نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اس میں شامل ہونا چاہئے۔ اگر ملک کے مسلمان سدبھاؤنا سے متعلق قرآنی تعلیمات پر عمل کریں گے تو اُمید ہے کہ شیطان اپنی جملہ سازشوں میں ناکام ہوگا اور مسلمانوں کے لئے کفار کے دل نرم پڑ جائیںگے۔ ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ کوئی بھی مسلمان قرآنی احکامات کے خلاف عمل نہ کرے کیوں کہ چند جاہل مسلمانوں کے عمل سے پوری اُمت مسلمہ کو بدنامی اور مصیبت کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے نیکی کی توفیق اور شیطان مردود سے پناہ طلب کرتے رہنا ہوگا۔ شیطان کے خلاف جہادکرنے سے پہلے ہمیں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا ہوگا، اپنے ہمزاد جنّ کے وسوسوں سے بچنا ہوگا اور نیکی کی طرف رغبت کرنا ہوگا تبھی ہم پُرامن طریقہ سے دنیا میں نفرت کی جگہ محبت پھیلا سکیںگے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو کفار کے فتنہ میں نہ ڈالے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے عمل سے معاشرے کو بھی بہتر بنا سکیں اور آخرت میں اجر عظیم کے مستحق ہوں۔ (آمین یا رب العالمین)۔