طارق اعظم کشمیری
ربِ کعبہ نے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے احسن اور بہترین مخلوق انسان بنایا۔ جسے اشرف کا شرف بخش کر عزت ، اکرام اور مقام سے سرفراز کردیا۔ کیوں کہ انسان سے پہلے پیدا کردہ مخلوق جنات تھیں۔ جو امن و سکون کے محور سے باہر نکل گئے اور دنیائے جہاں میں فتنہ و فساد برپا کیا۔ خون ریزی ، قتل و غارت اور نہ جانے کیا کیا۔ تو اللہ پاک نے اپنے فرشتوں سے فرمایا، میں ایک ایسی مخلوق پیدا کروں گا جو کرۂ ارض پر امن ، سکون ، چین اور راحت یعنی وہ تمام مثبت کاموں کو انجام دے گا ۔ اس بنا پر اللہ پاک نے انسان کو اپنا خلیفہ بھی بنایا۔ کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا حکم قائم کردیں۔ تواریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ پے در پے برگزیدہ بندوں یعنی انبیا کرام علیہ السلام اور چھوٹے بڑے صحیفوں کا نزول ربِ کریم نے کیا۔ فقط انسان کی صحیح رہبری و رہنمائی کے واسطے۔ کاروانِ انبیا کا سلسلہ چلتا چلتا گیا ، سرخم کرنے والے لوگوں نے فلاح و بہبودی حاصل کرلی اور منکران ِ دعوتِ حق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سخت وعیدوں کے مستحق ہوگئے۔ آخر میں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں اور جنات کی رہبری کیلے مبعوث ہوئے۔ سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے۔ کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صحیح راستے پر لانے کے لیے کتنی محنت و مشقت کی۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے شفیقانہ انداز میں فرمایا۔ اے میرے حبیب کیا آپ ان کے پیچھے اپنے آپ کو ہلاک کرو گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتنے فکر مند ہوتے تھے لوگوں کی ہدایت اور کامیابی کے لئے۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادات معاشرت، معاملات اور اخلاقیات جیسی تعلیمات پر بہت زیادہ زور دیا۔ فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور وہی شخص مسلمان ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے اس کا پڑوسی محفوظ ہے۔ بلکہ ہمارا دین ِ حق یہ بھی سکھاتا ہے کہ کسی انسان یا کسی بھی جاندار شے کو تکلیف دینا اور کسی مصیبت میں مبتلا کردینا حرام ہے۔ مجھے یہاں ایک اور حدیثِ مبارک یاد آیا۔ مفہوم ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا، وہ شخص بالکل بھی مومن نہیں، جس نے کسی کو بلا وجہ تکلیف دی۔ دورِ حاضر کے نام نہاد مسلمانوں کے کرتوتوں کو جب اس حدیث پاک کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو دل بہت افسردہ حال بن کے رہ جاتا ہے۔ کہ ہم ہاں سے کہاں پہنچے ہیں ۔آج جس آفت اور طوفان کی تباہ کاریوں پر میں رقم طراز کرنے جا رہا ہوں ،وہ ہے سحر۔ سحر عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی بہت سارے اہل علم نے بتائے ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ کیا سحر کسی پر اثر انداز ہوتا ہے یا کسی کو متاثر کرتا ہے؟۔ تو سیرت کی کتب میں مشہور واقعہ موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لبید یہودی اور اس کی بیوی نے جادو کردیا تھا، اس کے بعد آپ کو ایسا لگنے لگا تھا کہ آپ کسی کام کو کرچکے ہیں جب کہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک روز آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی اس پر سورة الناس اور سورة الفلق نازل ہوئیں جن میں ایک کی پانچ آیتیں اور ایک کی چھ آیتیں مجموعہ گیارہ آیتیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے سحر کا موقعہ بھی معلوم کرادیا گیا تھا، چنانچہ وہاں سے مختلف چیزیں نکلیں جن میں سحر کیا گیا تھا اور اس میں ایک تانت کا ٹکڑا بھی نکلا جن میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام سورتیں پڑھنے لگے ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھلنے لگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر شفایاب ہوگئے ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سحر یعنی جادو حق ہے۔ اور صحیح معنوں میں متاثر بھی کرتا ہے۔ ساحر مطلب جادو کرنے والا خبیث جنات و شیٰطین سے مدد لے کر یہ کارِ ظل کرتے ہیں۔ جن کو جادو گر نے نازیبا افعال سے قابو کیا ہوتا ہے۔ مولانا وحید بالی اپنی کتاب میں لکھتے ہے، کہ جادو گر کو سحر کرنے کیلے پہلے شیطان کا قرب حاصل کرنا پڑتا ہے۔ غرض کہ کبھی بیت الخلا میں قرآنِ مجید کو پائوں میں باندھ کر جانا پڑتا ہے تو کبھی نجاست سے قرآنی آیات لکھ کر اور حیرت کی بات یہ بھی کبھی اس بدضمیر اور جانور نما انسان کو بہن یا ماں سے زنا کرنا پڑتا ہے۔ استغفراللہ۔ آج ایسے بدکردار اور شیطان کے پوجاریوں کی کوئی گنتی نہیں۔ گائوں کیا شہروں کے شہر اور ملکوں کے ملک اس وبا کی زد میں آگئے ہیں۔ روز پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر حیرت کن خبریں ہوتی ہیں۔ کہ فلانی قبرستاں سے سحر نکلا گیا۔ میری آنکھوں نے خود ایک دلخراش واقعہ دیکھا ہے کہ ایک آدمی قبر سے سفید کپڑے میں لپٹ کر مچھلی نکالتا ہے۔ جس کے کسی کی تصویر اور اس پر تعویز چسپان تھے۔ آئے دن میں کسی نا کسی سے سنتا ہوں کہ مجھے پر کسی نے جادو کیا تھا۔ یہ حسد ، عداوت، بغض اور نفرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ آج کل نام لیوا مسلمان بھائی اپنے بھائی کو ، ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو بیماری میں مبتلا کرنے کیلئے اور اسے پیچھے کرنے کے واسطے غرض کہ ہر رنج و غم میں اسے مبتلا کرنے کیلئے شیطان ، خبیث اور ملعون نما پیروں کے پائوں پکڑتے ہیں۔ اور کتنا گرنا باقی رہ گیا تھا،جو یہ ساحر اور سحر کرنے والے لوگ گرا رہے ہیں۔ یاد رکھیں جادو گر اور جادو کرنے والا سخت وعیدوں کا مستحق ہوتا ہے۔ پہلی سزا یہ کہ ایسے لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔ پھر لعنتوں کی پھٹکار ان پر برستی ہیں۔چار بڑے اماموں میں ایک بڑے امام کا قول ہے کہ سحر کرنے والا واجب قتل ہے۔ ایک اہل علم نے لکھا ہے۔ اس کو توبہ نصیب نہیں ہوتی ہے۔ غرض کہ ایسے لوگ ہر رحمت سے محروم ہوجاتے ہیں اور جس پر سحر کیا جاتا ہے۔ وہ بیچارہ طرح طرح کے مصائب و آلام میں دوچار ہوتا ہے۔ ابھی ایک پریشانی ختم نہیں ہورہی دوسری جنم لیتی ہے۔ ایسا انسان ہر وقت افسردہ رہتا ہے۔ کبھی اس کا دل گبھراتا ہے، کبھی دماغ میں چکر آنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ میں نے ایک مفتی صاحب سے سنا کہ اس کے پاس ایک شخص آیا تھا، جو بہت بیمار تھا، وہ گونگا بھی نہ تھا لیکن بات بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ میں نے کہا کہ پھر کیا مسلہ تھا اس بیچارے کا۔ کہا اس پر سحر کیا گیا تھا اور سحر سے اس کی زبان بند کر دی گئی تھی۔ استغفر اللہ، کیا ایسے درندے انسان بھی ہمارے سماج میں رہتے ہیں جو چوری چھپے معصوم انسانوں پر وار کرتے ہیں، طرح طرح پریشان کرتے ہیں۔
لیکن غمگین ہونے کی کوئی بھی بات نہیں۔ کہتے ہے کہ دنیا میں موت کے سوا ہر چیز کا علاج ہے۔ ہر بیماری کیلے علاج بھی ہے اور سحر جیسی بیماری کا علاج طبیب جہاں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورہ فلق اور سورہ الناس کا معمول بنائیں اور بھی مسنوں دعائيں ہیں۔ ان کے اہتمام کرنے سے سحر کا اثر ختم ہوجاتا ہے۔ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی تھے اور یہ امت علما ٕ کرام کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اس لئے ہمیں ہر معاملے میں ان سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اور خاص کر سحر والے معاملے میں ورنہ جالی پیروں نے ہر جگہ اپنے ڈھیرے ڈالے ہیں۔ جہاں وہ من گھڑت دلیلوں سے لوگوں کو پریشان کر کے پیسے لوٹ رہے ہیں۔ لہٰذا ایک تو رسولِ اکرمؐ کی بتائے ہوئے وظائف کا مستقل معمول بنائیں اور ساتھ ساتھ علما ٕ کرام سے تعلق بھی کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو سحر اور سحر گروں سے نجات دیں ۔آمین
رابطہ۔ 6006362135
<[email protected]>