سحری و افطاری کے وقت آن لائن رہنا ضروری ہے؟

Mir Ajaz
10 Min Read

اِکز اقبال

’’ فیس بُک اور انسٹا گرام کو ہم مسلمان بنانے سے رہے تو بہتر یہی ہے کہ اسکرین ٹائم جتنا ہوسکے ‘ کم کریں ۔‘‘
رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا ہے۔ یہ رحمت ‘ برکت ‘ مغفرت اور خود احتسابی کا مہینہ ہے۔ یہ بندوں کا اُن کے رَبّ کے ساتھ جڑنے کا مہینہ ہے۔ دینی حوالے سے ماہِ رمضان گویا بچّوں، بڑوں ہر ایک کیلئے نیکی، پرہیز گاری اور کردار سازی کا مہینہ ہے۔ ایسے میں خاص طور تربیت اور کردار سازی کے حوالے سے اس مبارک مہینے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جائے ، جو کہ عموماً صرفِ نظر ہوتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رمضان کا مطلب صرف کھانے پینے سے پرہیز تک ہی محدود ہے۔ نہیں بلکہ اس پاکیزہ مہینے کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جائے کہ تقویٰ کے اعلیٰ درجے تک پہنچنے کی امید ہے ۔
سحری اور افطاری کے وقت آن لائن آنا یا اسٹیٹس رکھنا ضروری نہ سمجھا جائے، اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہماری سوسائٹی کی ذہنی تربیت ایسی ہوچکی ہے کہ ہم سحری یا افطاری کے وقت آن لائن نہ ہوں تو ہم روزہ دار نہیں ہے۔
موبائل فونز اور سوشل میڈیا کا استعمال کم کریں ، اگرچہ ہم فحش ویڈیوز اور ريلس دیکھنے سے پرہیز کرتے ہیں تاہم بلا ضرورت اور سرسری استعمال سے بھی پرہیز کریں۔ فیس بک اور انسٹا گرام کو ہم مسلمان بنانے سے رہے تو بہتر یہی ہے کہ اسکرین ٹائم جتنا ہوسکے ‘ کم کریں، تاکہ بنا کسی رکاوٹ کے عبادات کرلی جائے اور آپکی روزوں میں کوئی خلل نہ ہو ۔ماہِ صیام کے ان دنوں میں بہترین اور خوش ذائقہ پکوان کا اہتمام کریں، مگر حدِ اعتدال میں۔ ہمارے دن کا زیادہ تر وقت اِسی فکر میں ضائع ہوتا ہے کہ کھانے کے لئے کیا لائیں، کیا پکائیں اور کیا کھائیں! بہتر یہ ہے کہ روزے میں کھانا کم کرنا لازم سمجھے کیونکہ کھانا کم کئے بغیر جو روزے کا جو اعلیٰ مقصد ہے ،وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ افطاری کے لئے کوئی تکلف نہیں کرتے تھے ۔ کوئی کھجور سے، کوئی نمک سے ، بعض پانی سے اور بعض روٹی سے افطار کر لیتے تھے۔ ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم اس طریق کو پھر جاری کریں اور رسول کریمؐ اور صحابہؓ کے نمونہ کو زندہ کریں۔
گھر والوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کا بھی خیال رکھیں۔ اپنے دسترخوان کو متعدد پکوانوں سے سجانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خالی پلیٹیں بھی بھرنے کی کوشش کریں۔
افطاری اور سحری کے دسترخوان کی تصویر نہ کسی کو سینڈ کریں اور نہ ہی اسٹیٹس لگائیں کیونکہ آپ تو ایک تصویر لگا رہے ہوتے ہیں لیکن ہر کسی کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے ، لہٰذا اس سے پرہیز کریں ۔افطاری کے وقت سادہ اور ہلکا پھلکا کھانا کھائیں تاکہ رات کی عبادات اور تراویح بغیر سستی کے ادا کی جاسکے ۔
جان لو کہ روزے کی حالت میں سونا بھی عبادت ہے مگر یہ بات بھی جان لو کہ صرف سونا ہی عبادت نہیں۔ بہتر ہے زیادہ دیر تک جاگ کر زیادہ سے زیادہ عبادات ، نماز، ‘ قرآن کریم کی تلاوت اور دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔
مساجد میں ربط ضبط کا خاص خیال رکھا جائے ۔ خاص طور پر افطاری کے وقت ۔ زیادہ تر مساجد میں بجائے اس کے کہ روزہ کھلنے تک لوگ ذکر ِالٰہی میں مصروف ہوں،قرآن کریم کی تلاوت کرے یا دعائیں کریں، شور کی مجلسیں لگ جاتی ہے اور اس فکر میں رہتے ہیں کہ افطار کب ہوگا۔
رمضان ایک ایسا مہینہ ہے کہ مسجدوں میں ایسے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں، جو پہلے کبھی دکھائی نہیں دیتے ۔ اُن کو دیکھ کر دِل میں کسی قسم کی تحقیر کے جذبے کوپیدا نہ ہونا پائے۔ اگر کوئی فرد ان چہروں کو دیکھے اور انہیں تحقیر کی نظر سےدیکھیںتو ایسے افراد کی اپنی عبادتیں بھی باطل ہو جاتی ہیں اور ضائع ہو نے کا بھی احتمال ہے۔اس کے علاوہ بہتر یہی ہے کہ بستیوں کے مقامی باشندے گھر سے ہی وضو کر کے مساجد جایا کریں تاکہ مہمانوں اور راہگیروں کو وضو کرنے میں مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔
ہمارے گھر کی عورتیں ہمارے لیے سحری اور افطاری کا انتظام کرتی ہیں، ممکن ہو تو خواتین کا ہاتھ بٹائیں، واللہ اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی ضرور کریں۔خواتین پانی اور بجلی کا بے دریغ اور غلط استعمال نہ کریں ۔ متعلقہ محکمے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ مخصوص اوقات میں بجلی اور پانی کی فراہمی یقینی بنائیں ۔ خاص طور پر محکمہ بجلی سحری اور افطاری کے وقت بجلی کو دستياب رکھیں۔ گھروں میں یا مساجد میں افطار پارٹیاں کرنا تو ٹھیک ہے مگر بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے ہمسایوں کو دیکھیں، ارد گرد جگہ تلاش کریں اور روزمرہ واقف یا ناواقف مستحقین جو آپ کو دکھائی دیتے ہیں، ان کو افطار کرائیں، یہ عمل زیادہ بہتر ہے۔
کسی ایک اچھی روش کی شروعات اس ماہ مبارک سے کریں اور پورا سال اس پر پابند رہیں۔ جیسے وزن کم کرنے کی کوشش، آج کل ہر دوسرے فردکا مسئلہ ہے کہ موٹاپا بڑھ رہا ہے۔ رمضان کا موقع اس شروعات کے لئے نعمت ہے۔ ضرورت ہے تو آپ کی قوت ارادی اور عمل کی۔
بچوں کو ان کی عمر کے مطابق رمضان اور روزوں کے فضائل اور نعمتوں سے آگاہ کریں ۔ روزہ فرض ہونے کی عمر سے پہلے ہی بچوں میں رمضان المبارک کے روزے رکھنے کا ذوق و شوق پیدا کریں۔ تاکہ ایک تمیز دار اور سلیقہ شعار نسل تیار ہوجائے۔
دکاندار حضرات روزِ مرہ استعمال ہونے والے کھانے پینے کی چیزیں مناسب داموں پر فروخت کریں نہ کہ موقعے کا فائدہ اٹھا کر مہنگے داموں پر بیچ دیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ا ن چیزوں کو کم سے کم منافع پر فروخت کیا جائے تاکہ غرباء بھی خرید نے کے اخراجات برداشت کرسکیں۔
جو لوگ دن رات محنت مشقت کرکے اپنا گھر چلاتے ہیں، اُن سے قیمتوں پر بحث کئے بغیر چیزیں خرید لینی چاہیے۔ ماہِ رمضان المبارک کا مہینہ بہرحال ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنا سکھاتا ہے۔ اور سحری سے پہلے اُٹھ کر ‘ بھلے ہی چند منٹ ہوں ،تہجد کی چند رکعتیں پڑھ لیا کریں کیوں کہ تہجد اللہ میاں کی لاڈلی عبادت ہے اور اللہ میاں کو منوا ہی لیتی ہے ۔
ممکن ہے یہ رمضان آپکی زندگی میں وہ سکون لائے جو کبھی نہ ملا ہو، وہ سکون جو روح کو قرار دے، جس میں رب اپنی محبت کا جلوہ دکھائے ! ممکن ہے یہ رمضان آپ کی زندگی خوشیوں سے بھر دے، وہ خوشیاں جس کا آپ کوبرسوںسے انتظار ہے۔ انشاء اللہ
اور پھر چلتے چلتے آپ کو یہ بھی یاد دلاتا چلوکہ رمضان میں ہر نیکی کا اجر ستر گنا ہوجاتا ہےاور کبھی کبھی کچھ نیکیاں ایسی بھی کر لینی چاہیے جن کا گواہ اللّٰہ میاں کے سوا کوئی نہ ہو۔‎
رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت اور اہتمام کرنا چاہئے تاکہ جسمانی، روحانی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان ہمارے لئے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہے اور یہ ایک بابرکت مہینہ سارے سال کے شرور و معاصی کے ازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے ۔ ماہ رمضان کی برکتوں اور رحمتوں سے ہم سب فیض یاب ہوں۔
اس رمضان آپکو وہ سب نصیب ہو ‘ جسکی تمہیں اُمید ہے ۔آمین
( مضمون نگار مریم میموریل انسٹیٹیوٹ میں ایڈمنسٹریٹر ہیں)
رابطہ : 7006857283
: [email protected]

Share This Article