سال 2014ء کے لوک سبھا کے عام انتخابات سے قبل ایک انٹرویو میں بھاجپا نیتا مسٹر سبرامنیم سوامی نے کہا تھا کہ" ہم ہندووں کے ووٹ کو یکجاکریں گے اور مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کرکے اپنی پارٹی کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیں گے"۔اس وقت ہندوستانی عوام نے اور خصوصاً مسلمانوں نے سوامی کی بات کو ہلکے میں لیا ، مگر سوامی جی نے اپنی زبان سے آر ایس ایس کے پلان کو بیان کردیا تھا۔ لوک سبھا کے عام انتخاب کا نتیجہ حقیقت بن کر سب کے سامنے آہی گیا۔ مرکزی میں حکومت تشکیل دئے جانے کے بعد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی تقسیم کا سلسلہ جاری ہے ۔ مسلمانوں کا ہر گروہ ،دوسرے فرقے اور جماعت کو نیچادکھاکر مودی اور آر ایس ایس کی خوشنودی حاصل کرنے کو بے قرار نظر آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی صدر جمہوریہ کے منتخب ہونے کی خوشی میں پارلیمنٹ میںقابل اعتراض نعرے بلند ہوتے ہیں تو کہیں کسی سیاسی جماعت کے نام نہاد مسلمان بھی مذکورہ نعرہ لگا کر آر ایس ایس کو اپنی پشتینی غلامی کا بھر پور ثبوت دیتے نظر آتے ہیں،کبھی صوفی ازم اور وہابی ازم کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں میں نفرت ،کبھی پردہ نشین مسلم خواتین کانام لے کر تین طلاق پر ہنگامہ ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ تو دستخطی مہم چلاتا رہا کہ مسلم خواتین کو تین طلاق سے کوئی پریشانی نہیں ہے، لیکن یہ سوشل میڈیا ہے جس سے یہ پتا چلا کہ میڈیا پر برقعہ پہنیں ’’مسلم خواتین ‘‘ آر ایس ایس کی خریدی ہوئی بندھوا مزادور تھیں۔ابھی پوری طرح سے تین طلاق کا مسئلہ حل بھی نہیں ہو ا اور سپریم کورٹ مسئلے کا حل تلاش کر نے میںکوشاں ہی تھا کہ بابری مسجد کو شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت ثابت کر کے مودی اور یوگی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے چیرمین صاحب نے بھی عدالت عظمیٰ میں اپنی عرضی داخل کردی ہے۔حالانکہ شیعہ مسلمان اس بات پر متفق ومتحد ہیں کہ مسجد صرف اور صرف اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اس پر کسی فرقہ یا مسلک کا قبضہ نہیں ہوسکتا ۔دوستو! میں شیعہ وقف بورڈ کے چیرمین کی غلطی تلاش کرنے کے بجائے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ موصوف صرف ڈرامے کے ایک کردار کی طرح اپنا رول ادا کر کے بھاجپا سے اس ’’کارخیر‘‘کا محنتانہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ڈرامے کی اسکرپٹ تو ناگ پور میں بہت پہلے لکھی جاچکی ہے جو سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بھی بنی ہوئی ہے۔ فیس بک پر ہونے والی کچھ باتوں کا میں یہاں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں ،جو کچھ ہندو نوجوانوں کا مذاکرہ یا مکالمہ ہے جس کو میرے ایک دوست شجاع الحسن نے میرے ساتھ شیئر کیا ہے۔ا ور باتوں کے علاوہ ایک صاحب کہتے ہیں کہ "مسلمانوں نے شودروں(دلتوں) کو اپنے ساتھ کرنے کی سازش رچی اور وہ کامیاب ہوگئے، اب وقت آگیا ہے کہ ان کی چال ان پر ہی آزمائی جائے اور صوفی ، شیعہ ،سنی میں بٹوارہ کرکے دیش کو بچایا جائے "۔سوامی چیدم برانند "وہ ایک ہوجاتے ہیں ہمیں ہرانے کے لئے منوج کمار تیواری "نہیں سوامی جی !یہ ایک غلط فہمی ہے ،ہمیں ایک فرقہ کی طرف داری کرکے دوسروں پر حملہ کرنے کی ترغیب اور مدد دینی چاہئے"۔ اب بتائیں کس کو بُرا بھلا کہیں گے آپ ؟ ؟؟ بہار کے اقلیتی وزیر مسٹر خورشید کو جنہوں نے نعرہ لگا یا ان پر کفر کا فتویٰ لگا اور پھر پارٹی بدل کر چھٹی مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والے نتیش کمار کے کہنے پر توبہ کرکے اپنی غلطی کا احساس کیا ؟ ریاست اتر پردیش کے شیعہ وقف بورڈ کے چیر مین کو؟ دلت مسلم اتحاد کو فروغ دینے والے علما ئے کرام اور سیاسی رہنمائوں کو ؟جس کی سمجھ میں جو آئے وہ ضرور کہئے مگر علامہ اقبال نے اپنی مشہورنظم ’’جواب شکوہ‘‘ میں سارے جہاں کے رب کی طرف سے بہت پہلے ہم سب مسلمانوں سے سوال کیا تھا ؎
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو ،بتائو تو مسلمان بھی ہو
مجھے لگتا ہے کہ یہ سوال رب کی طرف سے آج ہم سے کیا جارہا ہے مگر ہندوستانی مسلمانوں کی جماعتوں اور فرقوں میں تقسیم ہی نہیں ہوئی ہے بلکہ شخصی اور دنیوی مفاد کے لئے فرقہ بندیوں میں مزید اضافہ ہی ہورہا ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ہندوستان کی آزادی سے قبل فرمایاتھ ؎
نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاںوالو تمہاری داستاںتک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اس وقت زمینی صورت حال سارے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے مشترکہ طور لمحہ فکریہ ہے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب تقسیم ہونے کے بجائے اتحاد، ہوش مندی ، صبر،اخلاق،محنت ،جانفشانی ، خلوص کے ساتھ حصول علم کی طرف اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو راغب کریںاور برائی کا جوابی برائی سے نہیں بلکہ اخلاق کریمانہ سے جواب دیں ۔ یہی وہ راستہ ہے جو کامیابی کا ضامن ہے ا ور قوموں میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ۔