میر شوکت پونچھی
دنیا میں اگر کوئی ایسی جنگ ہے جس کے میدانِ کارزار میں نہ خون بہتا ہے نہ لاشیں گرتی ہیں، نہ توپوں کی گھن گرج سنائی دیتی ہے نہ بموں کے دھماکے، تو وہ صرف ایک ہے،واہگہ بارڈر پر ہر شام لڑی جانے والی جنگ۔ یہ وہ جنگ ہے جو ستر برس سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اور آج تک اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جنگ جیتنے کے لیے نہیں لڑی جاتی، بلکہ دکھانے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ ایک ایسا تماشا، ایک ایسا منظرنامہ جو سرحد کے دونوں طرف کے عوام کو روز شام کے وقت یاد دلاتا ہے کہ دشمن زندہ ہے اور ہماری ٹانگیں بھی سلامت ہیں۔
شام کے چھ بجتے ہیں اور جیسے ہی سورج مغرب کی طرف ڈھلتا ہے، فضا میں ایک خاص قسم کی گھن گرج پھیل جاتی ہے۔ تماشائیوں کے ہجوم اپنی نشستوں پر سنبھل کر بیٹھ جاتے ہیں، جھنڈے لہرائے جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا ڈرامہ شروع ہوتا ہے، جس کی ریہرسل پچھلے ستر برس سے روز ہو رہی ہے مگر اختتام آج تک تحریر نہیں ہوا۔ سپاہی میدان میں آتے ہیں، ان کی مونچھیں تاؤ کھاتی ہیں، ان کی آنکھیں بجلیاں کڑکاتی ہیں اور ان کے جوتوں کی دھمک زمین کو یاد دلاتی ہے کہ یہ محاذ جنگ کا ہے۔پھر اچانک دونوں طرف ایک ہی وقت میں ایک عجیب حرکت ہوتی ہے۔ سپاہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے، سینے تان کر، ٹانگوں کو اتنے زور سے اوپر اٹھاتے ہیں کہ لگتا ہے جیسے آسمان سے مقابلہ کر رہے ہوں۔ ہر سپاہی کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ دشمن کو ہرا دے، بلکہ یہ کہ اپنی ٹانگ دشمن کی ٹانگ سے اِنچ بھر اوپر جائے۔ جیسے جنگ کا فیصلہ توپوں یا بندوقوں سے نہیں، انچ اور فٹ سے ہونا ہے۔تماشائی اپنی اپنی طرف کے سپاہی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔’’واہ! کیا ٹانگ اٹھائی ہے!‘‘ کوئی نوجوان چیختا ہے۔’’یہ دیکھو! ہماری فوج سب سے اونچی ہے!‘‘ کوئی اور نعرہ لگاتا ہے۔ ادھر بھی یہی منظر ہوتا ہے۔ یہ جنگ اصل میں عوام کے جذبات کی جنگ ہے۔ وہی جذبات جو ہر روز نعرے بازی میں پروئے جاتے ہیں، وہی جذبات جو جھنڈوں کی لہروں میں چھپ جاتے ہیں اور وہی جذبات جو سپاہیوں کی ٹانگوں کی بلندی میں ماپے جاتے ہیں۔دنیا میں اور بھی ممالک ہیں جن کے بارڈر ایک دوسرے سے جُڑے ہیں۔ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سرحد ہے جہاں دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔ چین اور روس کے درمیان بارڈر ہے، جہاں سخت حفاظتی انتظامات ہیں۔ جرمنی اور فرانس نے صدیوں کی جنگوں کے بعد اپنی سرحدوں کو نرم کر دیا ہے۔ لیکن کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ سرحدی محافظ روزانہ اپنی ٹانگوں کی مشق کر کے یہ دکھائیں کہ’’ہماری ٹانگ دشمن سے اونچی ہے، لہٰذا ہمارا حوصلہ بھی اونچا ہے۔‘‘ یہ تماشا دنیا میں منفرد ہے اور شاید اسی لیے یہ سب سے لمبی جنگ بھی ہے۔اگر غور کیا جائے تو یہ جنگ اصل میں جنگ نہیں بلکہ رقص ہے۔ ایسا رقص جس میں تلواریں نہیں بلکہ بوٹ بجتے ہیں، جس میں بندوقیں نہیں بلکہ آنکھوں کی بجلیاں چلتی ہیں۔ سپاہی رقاص بن جاتے ہیں اور بارڈر ایک تھیٹر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پردہ کبھی نہیں گرتا، سامعین کبھی کم نہیں ہوتے اور مکالمے روز نئے انداز میں دہرائے جاتے ہیں۔تماشائیوں کی آنکھوں میں یہ سب دیکھ کر ایک عجیب چمک آتی ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ ہے، حالانکہ حقیقت میں یہ جنگ کا ڈرامہ ہے۔ مگر چونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جیتے ہیں ،جہاں ڈرامے کو حقیقت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے یہ تماشا ستر برس سے جاری ہے اور شاید آئندہ ستر برس تک بھی جاری رہے گا۔یہ سوال بھی دلچسپ ہے کہ اگر کل کو دونوں طرف کے سپاہی ایک دوسرے کو مسکرا کر ہاتھ ملا لیں، اپنی ٹانگیں نیچے رکھ دیں اور کہیں: ’’بھائی! کافی ہو گیا، اب تھک گئے ہیں۔‘‘ تو تماشائی کیا کریں گے؟ شاید وہ مایوس ہو جائیں گے، کیونکہ ان کے لیے یہ جنگ اب تفریح کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں نہ جیت ہے نہ ہار، مگر تالیاں اور قہقہے دونوں طرف بجتے ہیں۔افسوس ہم نے امن کے کھیل کو بھی جنگ کا تماشا بنا دیا ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لیے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم کس قدر مضبوط ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ستر برس کی اس جنگ میں صرف ٹانگیں ہاری ہیں۔ گھٹنے درد سے ٹوٹے ہیں، بوٹ گھس گئے ہیں اور زمین پر دھمکنے والی وہ دھول اب بھی اپنے اندر سوالات دبائے بیٹھی ہے۔اس جنگ کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ کسی کی جان نہیں لیتی، لیکن اس کی بدصورتی یہ ہے کہ یہ اصل امن کو کبھی قریب نہیں آنے دیتی۔ کیونکہ جب روز شام کو دشمن کا چہرہ یاد دلا دیا جائے، تو دوستی کا چہرہ بھلا کون دیکھے؟یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ دنیا کی واحد جنگ ہے جو روز لڑی جاتی ہے، روز ہاری جاتی ہےاور روز جیتی بھی جاتی ہے۔ مگر ستر برس گزرنے کے بعد بھی اس کا واحد نتیجہ یہی نکلا ہے کہ اب تک صرف ٹانگیں ہی ہاری ہیں۔
واہگہ بارڈر کی یہ تقریب، جسے عموماً ’’بیٹنگ ریٹریٹ‘‘ یا’’فلیگ لوئرنگ تقریب‘‘ کہا جاتا ہے، پہلی بار 1959 میں شروع کی گئی تھی۔ اس کا مقصد سرحد کے دونوں طرف پرچم کو باوقار انداز میں اتارنا تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ تقریب ایک تماشے میں بدل گئی۔ دونوں ممالک کے سپاہیوں نے اسے محض ایک فوجی کارروائی کے بجائے حب الوطنی کے ڈرامائی اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔اس تقریب کے دوران سپاہیوں کی وردیاں خاص طور پر تیار کی جاتی ہیں، بوٹ پالش کر کے ایسے چمکائے جاتے ہیں کہ سورج کی کرنیں بھی شرما جائیں، اور مونچھوں کو ایسا تاؤ دیا جاتا ہے کہ گویا وہ خود ہی دشمن پر حملہ آور ہونے کو تیار ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی سرحدی محافظ اس انداز میں’’مارچ‘‘ نہیں کرتے۔ واہگہ بارڈر کی یہ رسم ایک منفرد کوریوگرافی رکھتی ہے، جو فوجی طاقت سے زیادہ عوامی جذبات کو ابھارنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ کچھ ناقدین اسے’’مارشل آرٹ کی بجائے مارشل ڈانس‘‘ قرار دیتے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تقریب ایک سیاحتی مرکز میں بھی بدل گئی۔ ہزاروں لوگ روز یہاں پہنچتے ہیں، ہلہ گلہ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں اور واپس جا کر یہی کہتے ہیں: ’’ہم نے دشمن کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا!‘‘ حقیقت میں وہ دشمن کو نہیں، ایک تھیٹر دیکھ کر آئے ہوتے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ ستر برس سے زائد عرصے میں اس تقریب نے دشمنی کو کم کرنے کے بجائے یاد دہانی کا کام کیا ہے۔ روز یہ دکھایا جاتا ہے کہ’’ہم الگ ہیں، ہم ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اور ہماری ٹانگیں ایک دوسرے سے اونچی ہیں۔‘‘یوں واہگہ بارڈر کی یہ رسم محض ایک فوجی تقریب نہیں، بلکہ برصغیر کی سیاسی نفسیات کا آئینہ بھی ہے،جہاں ہم نے امن کے امکان کو بھی ایک جنگی کھیل میں ڈھال دیا ہے۔
[email protected]