Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں! جائزہ

Towseef
Last updated: July 21, 2025 11:40 pm
Towseef
Share
9 Min Read
SHARE

سبدر شبیر، کولگام

ستارے ہمیشہ سے انسان کے لیے حیرت کا باعث رہے ہیں۔ ان کی چمک، وسعت اور بلندی نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ رات کے سناٹے میں جب آسمان پر ان گنت ستارے جھلملا رہے ہوتے ہیں تو ایک خیال دل میں ابھرتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ ہی اصل ہے؟ کیا اس کے بعد کچھ نہیں؟ کیا یہ کائنات ہی آخری حد ہے؟ مگر پھر اچانک ایک صدا ذہن کی گہرائیوں میں گونجتی ہے، جو شعور کے پردوں کو ہلا دیتی ہے ـ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔‘‘ علامہ اقبال کا یہ مصرع صرف ایک شاعر کی تخیل پرواز نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک اعلان ہے، ایک چیلنج ہے کہ مت رُک، ابھی سفر باقی ہے۔

زندگی کی راہوں میں اکثر انسان رکنے لگتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ بس یہی دنیا سب کچھ ہے۔ گھر، دولت، عہدہ، شہرت ـ ان سب کو حاصل کر کے گویا وہ مکمل ہو گیا۔ لیکن علامہ اقبال ہمیں جھنجھوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم نے دنیا کی آسائشیں حاصل کر لیں، چاند پر پہنچ گئے، سائنس کی منزلیں طے کر لیں، تو کیا یہی کامیابی ہے؟ اصل کامیابی تو وہ ہے جب انسان اپنی ذات کے اندر جھانکتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہاں ابھی اندھیرا ہے۔ ستاروں تک پہنچنے کے باوجود دل خالی ہے، روح پیاسی ہے، خودی سوئی ہوئی ہے۔

اقبال کا پیغام سادہ ہے مگر گہرا۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی پرواز ستاروں سے بھی آگے ہو سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اپنی ’’خودی‘‘ کو پہچانے۔ خودی کا مفہوم صرف یہ نہیں کہ انسان اپنے وجود کو محسوس کرے، بلکہ یہ شعور حاصل کرے کہ وہ اس کائنات میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ اس کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ کیا وہ محض کھانے، سونے اور دنیا کے پیچھے بھاگنے کے لیے آیا ہے؟ یا اس کے وجود میں کوئی نورانی مقصد چھپا ہے جسے تلاش کرنا اس کا فرض ہے؟ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے فکری بیداری کا آغاز ہوتا ہے۔

انسان کی روح بے قرار رہتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ کسی اور جہان کی چیز ہے۔ وہ خاک میں قید ضرور ہے، مگر اس کا تعلق آسمان سے ہے۔ ستارے اگر اس کی آنکھوں میں چمکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں بلندی کی آرزو ہے۔ وہ بلندی صرف مادی ترقی سے نہیں آتی، بلکہ روحانی شعور سے آتی ہے۔ وہ علم سے، خدمت سے، عشق سےاور قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال عشق کو سب سے بڑی طاقت قرار دیتے ہیں۔ عشق، جو مایوسی سے نکال کر جدوجہد کی طرف لے جاتا ہے۔ عشق، جو خود غرضی کو ختم کر کے ایثار سکھاتا ہے۔ عشق، جو انسان کو اس کے خالق سے جوڑتا ہے۔

اقبال کی فکر صرف فرد تک محدود نہیں، بلکہ قوموں کی تقدیر بھی ان کے کلام سے وابستہ ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ’’جہاں اور بھی ہیں‘‘ تو وہ دراصل قوموں کو مخاطب کرتے ہیں کہ اے قومو! تم نے جو کچھ حاصل کیا، اس پر مطمئن مت ہو۔ اگر تم نے تعلیم حاصل کر لی، سیاست میں کامیابی پا لی، یا معیشت کو سنبھال لیا، تو سمجھو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ تمہیں اپنے اخلاق، اپنے روحانی معیار، اپنے اجتماعی شعور کو بلند کرنا ہے۔ کیونکہ جو قوم اپنے آپ کو مکمل سمجھنے لگتی ہے، وہ زوال کے دہانے پر کھڑی ہو جاتی ہے۔

آج کے دور میں جب انسان چاند پر پہنچ چکا ہے، مصنوعی ذہانت نے سوچنے کے انداز بدل دیے ہیں، اور دنیا سکڑ کر ایک گلوبل گاؤں بن چکی ہے، تو ہمیں یہ مصرع پہلے سے زیادہ زور سے سنائی دیتا ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ـ یعنی تمہارے علم کی، تمہاری تحقیق کی، تمہاری سچائی کی اور تمہاری روح کی حدیں ابھی طے نہیں ہوئیں۔ کائنات کا ہر راز اب تک آشکار نہیں ہوا۔ زندگی کے معنوں کی گہرائی ابھی مکمل دریافت نہیں ہوئی۔ یہ وہ پیغام ہے جو ہر سچے طالب علم، ہر محقق، ہر درویش اور ہر باشعور فرد کے دل کی دھڑکن بن جانا چاہیے۔

انسان جب اپنے اندر جھانکتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے دل میں کئی ایسے سوال ہیں جن کے جوابات سائنس بھی نہیں دے سکتی۔ محبت، قربانی، حق، باطل، خدا، موت، تقدیر ـ یہ سب وہ جہان ہیں جو ستاروں کے آگے آباد ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں عقل تھک جاتی ہے اور وجدان شروع ہوتا ہے۔ جہاں دلیل رک جاتی ہے اور دل کی صدا سنائی دیتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے خالق کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جان لیتا ہے کہ اصل سفر تو اب شروع ہوا ہے۔

نوجوان نسل کو یہ بات جاننی چاہیے کہ زندگی کا اصل لطف تلاش میں ہے، دریافت میں ہے، جستجو میں ہے۔ اگر ہم رک گئے، تھم گئے، یا یہ سمجھ بیٹھے کہ جو کچھ حاصل ہے وہی سب کچھ ہے، تو ہم اپنے وجود سے غداری کریں گے۔ اقبال کا نوجوان وہ ہے جو راتوں کو جاگ کر ستاروں کا راز سمجھنا چاہے، جو صبح کے وقت بیدار ہو کر دل کی دنیا کو روشن کرے، جو اپنے ملک، اپنی قوم، اور اپنی روح کی بہتری کے لیے مسلسل محنت کرے۔ ایسا نوجوان ہی “جہاں اور بھی ہیں” کے پیغام کو سمجھ سکتا ہے۔

جب انسان اپنے اندر موجود جہانوں کی کھوج پر نکلتا ہے تو وہ درحقیقت خدا کی طرف بڑھتا ہے۔ اسے ہر شے میں اس کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔ کائنات ایک کتاب بن جاتی ہے، اور انسان اس کا قاری۔ ستارے، درخت، پانی، پہاڑ ـ سب نشانیاں بن جاتے ہیں۔ انسان سمجھ جاتا ہے کہ دنیا میں آنے کا مقصد صرف زندہ رہنا نہیں بلکہ شعوری طور پر جینا ہے۔ اور ایسا جینا جو کائنات سے ہم آہنگ ہو، اور خالق کے قرب کا ذریعہ بنے۔

اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ عشق کے امتحان ابھی باقی ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو پا لیا، وہ دراصل ابھی ابتدا میں ہیں۔ کیونکہ محبت کی راہ میں ہر قدم ایک نئی منزل لاتا ہے، ہر لمحہ ایک نیا سوال کھولتا ہے۔ عشق کا سفر کبھی مکمل نہیں ہوتا، کیونکہ خدا لامحدود ہے، اور اس کی معرفت کا سفر بھی لا انتہا ہے۔

سو اے انسان! اٹھ، چل پڑ، مت تھم، مت تھک، کیونکہ تیرے لیے راستے ابھی ختم نہیں ہوئے۔ تیرے قدموں کے لیے زمین تنگ نہیں ہوئی۔ تیرے سوالوں کے جواب کہیں نہ کہیں موجود ہیں، بس تُو خلوص کے ساتھ تلاش جاری رکھ۔ تُو اپنی روح کو جگا، اپنی خودی کو بلند کر، اور اُس سفر پر روانہ ہو جس کا نقشہ ستاروں سے آگے ہے۔

یہی اقبال کا پیغام ہے۔ یہی انسانیت کا راستہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جو ہر سوچنے والے دل، ہر جاگتے ہوئے ذہن، اور ہر تڑپتی ہوئی روح کو دی گئی ہے ـ کہ ستارے مت دیکھ، ستاروں سے آگے دیکھ، کیونکہ وہاں کچھ اور ہے، کچھ عظیم تر، کچھ حقیقی تر، کچھ ایسا جو تیرا اصل مقام ہے۔
[email protected]
����������������

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ویشنو دیوی یاترا راستے پر لینڈ سلائیڈنگ | ایک یاتری ازجان،9زخمی،ایل جی کا اظہار افسوس
جموں
پونچھ میں لینڈ سلائیڈ نگ کا المناک حادثہ، 1طالبعلم جاں بحق، 5زخمی ڈپٹی کمشنر کی زخمی بچوں کی عیادت، متاثرہ خاندانوں کو ریلیف فراہم کی گئی
پیر پنچال
ریاسی اور پونچھ میں آج سکول بند رہیں گے
جموں
جموں میں مون سون کا جادوسر چڑھ کر بولا | بادلوں کی گرج، بارش کی رم جھم اور قدرت کے حسین رنگوں کا نظارہ
جموں

Related

کالممضامین

’’غم نہ کرو، سب ٹھیک ہوگا ‘‘ ٖغور طلب

July 21, 2025
کالممضامین

سکولوں میںلائبریریوں کی بحالی لازمی پُکار

July 21, 2025
کالممضامین

تعلیم کو صرف کاغذ تک محدودنہ رکھیں غورو فکر

July 21, 2025
کالممضامین

کرسی کی زنجیر اور اختیارات کا پنجرہ جرسِ ہمالہ

July 21, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?