محمد عرفات وانی
کشمیر کی حسین وادیوں میں ایک وادی ایسی بھی ہے جو اپنے سبز پہاڑوں اور صاف فضاؤں کے باوجود محرومی اور بے بسی کی کہانی سناتی ہے، وہ وادی ہے ترال۔ کبھی تہذیب، امن اور علم کا استعارہ سمجھا جانے والا یہ علاقہ آج صحت کے شعبے میں حکومتی غفلت اور نظامی ناکامی کی زندہ مثال بن چکا ہے۔ یہاں کے لوگ جو برسوں سے چیلنجوں کے باوجود حوصلے اور امید کے چراغ روشن رکھتے آئے ہیں، آج اپنے ہی ہسپتال کے دروازے پر مایوسی کے سائے دیکھ رہے ہیں۔ سب ڈسٹرکٹ ہسپتال ترال جو کبھی شفا کی امید تھا، اب بدانتظامی، وسائل کی کمی اور حکومتی بے حسی کا منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔ یہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ ایک سوال ہے اس نظام کے نام جو عوام کے درد کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
یہ ہسپتال باضابطہ طور پر اگرچہ ایک کمیونٹی ہیلتھ سینٹر (CHC) کے درجے پر ہے مگر حقیقت میں یہ 116دیہات اور تقریباً نصف لاکھ سے زائد آبادی کے لیے واحد سہارا ہے۔ یہاں کے باسی جو پہاڑوں اور نالوں سے گِھری وادیوں میں زندگی گزارتے ہیں، اپنی صحت کے لیے اسی ایک ادارے کے رحم و کرم پر ہیں۔ مگر افسوس! یہ ادارہ آج خود علاج کا محتاج بن چکا ہے۔ ہسپتال کی عمارت خستہ حال ہے، آلات جراحی و تشخیص پرانے یا غیر فعال ہیں اور جدید سہولتوں کا نام و نشان نہیں۔ یہاں MRI، CT اسکین اور دیگر بنیادی تشخیصی سہولیات موجود نہیں، لیبارٹری خدمات محدود ہیں اور بلڈ بینک کا نہ ہونا ایک مستقل المیہ ہے۔ اکثر اوقات مریضوں کو خون کی منتقلی یا کسی معمولی ٹیسٹ کے لیے بھی سرینگر جانا پڑتا ہے جو نہ صرف مالی لحاظ سے ایک بوجھ ہے بلکہ کئی مریضوں کے لیے زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ بن جاتا ہے۔
ہسپتال میں ماہر ڈاکٹروں، اسپیشلسٹ کنسلٹنٹس اور پیرامیڈیکل عملے کی شدید کمی ہے۔ چند موجود ڈاکٹروں پر کام کا اتنا بوجھ ہے کہ وہ دن رات کے فرق کو بھول چکے ہیں مگر پھر
بھی علاج میں تاخیر، قطاروں میں انتظار اور ایمرجنسی وارڈ میں افراتفری عام بات بن چکی ہے۔ مریضوں کو اکثر معمولی امراض کے لیے بھی دوسرے اضلاع میں ریفر کیا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ تاخیر مہلک ثابت ہوتی ہے۔ خاص طور پر زچہ و بچہ کی صحت کے شعبے میں سہولتوں کی کمی نے خواتین اور نومولود بچوں کو سب سے زیادہ خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ ہر سال درجنوں خواتین محفوظ زچگی کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں اور ان کی زندگیاں ایک معمولی طبی غفلت پر ختم ہو جاتی ہیں۔
ترال کے عوام نے اس بدحالی کے خلاف بارہا آواز بلند کی۔ مقامی سماجی تنظیموں، طلباءاور عام شہریوں نے حکومت کو درجنوں یادداشتیں پیش کیں، وفود نے حکام سے ملاقاتیں کیں، احتجاج ہوئے مگر یہ آوازیں سرکاری کمروں کی بند دیواروں میں گم ہو گئیں۔ حکومت کی جانب سے بارہا وعدے کیے گئے کہ ہسپتال کو اپ گریڈ کیا جائے گا، جدید سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور ماہر عملہ تعینات کیا جائے گا مگر یہ سب وعدے آج بھی فائلوں کے گرد جمع گرد میں دفن ہیں۔
ترال ہسپتال کے گردونواح میں بھی حالات بہتر نہیں۔ اسپتال کے سامنے وٹل آرہ نالہ پر پل کی عدم تکمیل نے ایمرجنسی ٹرانسپورٹ کے نظام کو مفلوج کر رکھا ہے۔ کئی بار ایمبولینسوں کو نالے کے پانی میں رکنا پڑتا ہے اور قیمتی لمحے جو کسی مریض کی زندگی بچا سکتے ہیں،،ضائع ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، ہسپتال کے باہر موجود جموں و کشمیر بینک کا اے ٹی ایم ہفتوں سے بند ہے جس سے مریضوں کے اہل خانہ نقد رقم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایکس رے مشینوں کا اکثر خراب رہنا، اینٹی ریبیز ویکسین کی قلت اور ایمرجنسی وارڈز میں ادویات کی کمی نے حالات کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔
ترال کے عوام اب سوال کر رہے ہیں کہ آخر ان کی محرومی کب ختم ہوگی؟ کیا ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک دور دراز وادی میں رہتے ہیں؟ کیا ان کا حق نہیں کہ ان کے اپنے علاقے میں ایک مکمل فعال اسپتال ہو جہاں ان کے بچوں، عورتوں، اور بزرگوں کا بروقت علاج ہو سکے؟اب وہ وقت آ چکا ہے کہ حکومت کو صرف وعدوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ محض ایک ترقیاتی منصوبہ نہیں بلکہ انسانی جانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ اب انتظامی نہیں بلکہ انسانی ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔
یہ نہایت ضروری ہے کہ جموں و کشمیر حکومت، بالخصوص وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ ، محکمۂ صحت و طبی تعلیم، ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ سروسز کشمیر اور ضلعی انتظامیہ پلوامہ فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کریں۔ ترال کے عوام کا مطالبہ بالکل واضح ہے۔ ہسپتال کو فوری طور پر ایک مکمل فعال سب ڈسٹرکٹ ہسپتال کے درجے پر اپ گریڈ کیا جائے، جہاں 24 گھنٹے ایمرجنسی اور تشخیصی خدمات میسر ہوں، ماہر ڈاکٹروں اور نرسنگ اسٹاف کی تعیناتی یقینی بنائی جائے اور زچہ و بچہ کے شعبے کو جدید سہولتوں سے لیس کیا جائے۔ وٹل آرہ نالہ پر پل کی تعمیر، پہنچ کے راستوں کی بہتری اور ایمرجنسی ٹرانسپورٹ نظام کی مضبوطی فوری طور پر عمل میں لائی جائے تاکہ مریضوں کو بروقت اسپتال پہنچایا جا سکے۔ساتھ ہی ہسپتال میں MRI اور CT اسکین یونٹس کا قیام، ایک فعال بلڈ بینک، مستقل پیرامیڈیکل و ٹیکنیکل عملہ اور ضروری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ یہ سہولتیں کسی آسائش کا نام نہیں بلکہ شہریوں کا بنیادی حق ہیں، وہ حق جس سے ترال کے لوگ طویل عرصے سے محروم ہیں۔ترال کے عوام کے صبر کی گھڑیاں ختم ہو چکی ہیں۔ ان کے زخم گہرے ہیں مگر امید اب بھی زندہ ہے، اس دن کی امید، جب ان کے اپنے علاقے کا اسپتال واقعی شفا کا مرکز بنے گا جہاں ہر مریض کے چہرے پر اطمینان ہو، نہ کہ مایوسی کے آثار۔اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت جاگے، وعدوں کو حقیقت میں بدلے اور ترال کے عوام کو وہ حق واپس کرے جو ان کا برسوں سے قرض ہے، صحت، سہولت اور زندگی کا حق۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے، یہی انسانیت کی پہچان ہے۔
رابطہ۔ 9622881110
[email protected]