اس وقت انسانی آبادی کوجو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے ،وہ مہنگائی کا ہے اور روز مرہ زندگی کی بیشتر چیزیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہونے لگی ہیں۔ہمارے ملک بھارت میںمہنگائی کا جن بوتل سے کچھ اس طرح باہر آیا ہے کہ اب مہنگائی کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آرہا ہے اور اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑنا شروع ہوچکے ہیں۔ضروری اشیاء ، جن کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا، اب پہلے کی نسبت کئی گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کا رجحان کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اضافے کا رجحان جاری ہے جس سے عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔
اس سال سبزیوں، پھلوں اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں وقتاً فوقتاً اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس بار بھی قیمتیں بڑھی ہیں اور صارفین کو ناکوں چنے چبوائے جا رہے ہیں۔ یہ سردیوں کے موسم سے پہلے ہو رہا ہے۔اگر اس وقت منظر نامہ ایسا ہے تو کوئی اچھی طرح سے سمجھ سکتا ہے کہ سردیوں میں کیا ہوگا جب سری نگر جموں قومی شاہراہ برف باری، لینڈ سلائیڈنگ اور پسیاں گرآنے کی وجہ سے اکثر بند رہتی ہے۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق آلو، ٹماٹر، پیاز، گوبھی، کولارڈ ساگ، مٹر، پھلیاں اور دیگر سبزیاںنظامت خوراک و رسدات و امور صارفین کے مقرر کردہ نرخوں سے زیادہ قیمتوں پر فروخت ہو رہی ہیں۔ سیب کے علاوہ نارنجی، انناس، کیوی، انار، انگور اور پپیتے کا بھی یہی حال ہے۔بازاروں میں چکن بھی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔
صارفین بازاروں میں متعلقہ محکمے کے اہلکاروں کی جانب سے مناسب چیکنگ نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ وہ پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کی بدعنوانی کو روکنے کےلئے چیکنگ کرتے ہیں۔مارکیٹ چیکنگ کو تیز کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ بازاروں کی چیکنگ صرف خاص مواقع پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ ایک مستقل عمل ہونا چاہیے۔ اگر سبزیاں اور پھل اور دیگر اشیا مہنگے داموں فروخت ہونے کی اطلاعات ہیں تو درحقیقت اس میں شدت آنی چاہئے۔
مہنگائی کی مار جھیل رہے ہمارے معاشرے کے غریب طبقے کی پریشانیوں سے کوئی غافل نہیں ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ غریب کے لئے دو وقت کی روٹی جٹا پانا بھی مشکل ہوچکا ہے تاہم اب حالات یہاںتک پہنچ چکے ہیں کہ ہمارا متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقہ بھی یکساں پریشاں ہے کیونکہ اب اخراجات ان کے بجٹ سے باہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔صورتحال اُس وقت تشویشناک بن جاتی ہے جبکہ آمدن کے ذرائع محدود ہوں۔ان تین برسوں میں ہم نے بچشم خود مشاہدہ کیا کہ بیشتر لوگوںکی آمدن میں اضافہ کی بجائے خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور دوسری جانب جب چیزوں کے دام بڑھ جائیں تو یہ دو دھاری تلوار بن جاتی ہے جو بیک وقت دو ضربیں دے رہی ہے ۔ایک آمدن کم اوردوسرا اخراجات زیادہ ۔
مانا کہ سرکار نے مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں کیں اور مسلسل کررہی ہے تاہم بادی النظر میں حکومتی اقدامات کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ مہنگائی بتدریج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور عام آدمی کو راحت ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔اس صورتحال میں حکومت کیلئے صورتحال کا جائزہ لینا اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مارکیٹ میں اختراعی مداخلت کرنا انتہائی ضروری بن گیاہے۔
حکومت اس سنگین مسئلہ پر اُن ماہرین کے بحث و تمحیص کیلئے نہیں چھوڑسکتی ہے جن کا ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات و سوشل میڈیا مباحثوں میں بحث کرنا مشغلہ بن چکا ہے ۔ ان نام نہاد ماہرین کی ایسی بحثیں اُس وقت تک ایک عام آدمی کیلئے کوئی مطلب نہیں رکھتی ہیںجب تک کہ قیمتوں کو واقعی قابو میں نہ کیاجائے۔حکومت کا کام صرف اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنا نہیں ہے بلکہ طویل مدتی منصوبہ میں قیمتوں کو نیچے لانا ہے۔ان لوگوں کیلئے جن کی کمائی کم ہے اور ہماری آبادی کا سب سے بڑا حصہ اس زمرے میں پڑتا ہے ،ان کیلئے دو وقت کی روٹی جٹاپانا مشکل ہوچکا ہے ۔ ایسے لوگوں کو حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے اور ان کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس رجحان کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کی جائے۔
دکانداروں کے ایک طبقے کی طرف سے اس طرح کی بددیانتی میں ملوث صارفین کے استحصال کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ صارفین کو اس طرح کے استحصال کی اطلاع متعلقہ محکمے کے افسران کو بھی دینی چاہیے، جو ہر جگہ اور ہر وقت بازاروں میں چیکنگ کے لیے موجود نہیں ہو سکتے۔پھل اور سبزیاں بیچنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سال پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے نرخ زیادہ ہیں۔اگر ایسا ہے تو بیچنے والے کو متعلقہ محکمے سے رجوع کرنا چاہیے اور اپنی مرضی کے مطابق قیمتیں بڑھانے کے بجائے حقیقی طور پر ریٹ اپ ڈیٹ کرانا چاہیے۔ ایک مناسب طریقہ کار ہونا ضروری ہے۔متعلقہ محکمہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں جاری بلا جواز اضافہ کا خاتمہ کیا جائے اور صارفین کو بار بار پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حکومت چاہے تو یہ ناممکن نہیں ہے ۔ہم ایک فلاحی ریاست کے باشندے ہیں جہاں حکومت عوام کو راحت پہنچانے کی مکلف ہے اور حکومت کے پاس یقینی طور پر ایسا انتظام ہمہ وقت موجود رہتا ہے جس کو بروئے کار عوام کی راحت رسانی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور شاید ہی آج سے زیادہ عوام کو مہنگائی کی مار سے راحت پہنچانے کی ضرورت ہوگی ۔ارباب بست و کشاد کو چاہئے کہ وہ غریب عوام کی راحت رسانی یقینی بنانے کیلئے مہنگائی پر قابو پانے کے مزید اور ٹھوس اقدامات کرں۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ ارباب اقتدار عام عوام کی مشکلات سے لاتعلق اور بے نیاز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبزیاں اور پھل قوتِ خرید سے باہر غریب عوام کیلئےمہنگائی کا کچھ تدارک کریں!
