بشیر اطہر
فن شاعری کی طرح مضمون نویسی کی بھی ایک الگ حیثیت ہے شاعری میں حروف کے ساتھ کھیلنا ہی شاعری ہے مگر نثر کو قالین کی طرح بُننا پڑتا ہے اس میں بہت زیادہ محنت لگتی ہے۔ہماری وادی کشمیر میں نثر نگاروں کی کمی نہیں ہے یہاں ایسے نوجوان قلمکار بھی ہیں ،جو نئے نئے نثر ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ اگر ان نوجوان نثر نگاروں کی فہرست ترتیب دیا جائے گا تو ایک لمبی فہرست بن جائے گی، انہی نثر نگاروں میں ایک نثر نگار سبزار احمد بٹ بھی شامل ہیں جن کی کئی نثری تصانیف منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ آج میں اُن کی ایک کتاب ’’عصری فکر وفن‘‘ پر اپنا تبصرہ قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں۔اس کتاب میں اُن شاعروں کے متعلق تبصرے شامل ہیں جنہوں نے ادب کی خاطر کوئی نہ کوئی کام انجام دیا ہے اور اپنا نام کمانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔
جب ان شاعروں نے سبزار احمد بٹ کے ذہن پر اپنا عکس بنایا ہے تو وہ صفحہ قرطاس پر ان کے متعلق رقم طرازی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔سبزار احمد بٹ عصر حاضر کے نوجوان قلمکاروں میں سے ایک اعلیٰ اور باحس نوجوان قلمکار ہیں جو ہر موضوع پر بات کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ،آپ جو دیکھتے ہیں اسے زبان دینے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔موجودہ کتاب میں انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی سطح کے مستند شعراء، قلمکاروں اور افسانہ نگاروں کے متعلق بصیرت افروز اور وسیع تر مقالے پیش کئے ہیں جو ادبی شائقین کےلئے سود مند ثابت ہوں گے۔ آپ نے اس کتاب کو تخلیق کرنے میں عرق ریزی سے کام کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ آج کل کے دور میں ایسے قلمکار بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں اپنے کو چھوڑ کر دوسروں کی فکر ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں خلوص اور نیک نیتی ہے ۔ایک اور بات یہ بھی ہے کہ آپ نے جس انداز سے شاعروں اور قلمکاروں کے بارے میں لکھا ہے ،ایسالگتا ہے کہ انہوں نے پھولوں کا گلدستہ سجایا ہے،تنقید و تبصرے کی دنیا میں عصری فکروفن کی خاصی اہمیت حاصل ہے اور سبزار احمد نے اس کتاب کوبڑی جرأت مندی سے تیار کیا ہے۔ انہوں نےجب بھی قلم اٹھایا ہے اس میں کافی سنجیدگی اور پختہ خیالی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ جو بھی بات لکھتے ہیں، وہ تحقیق پر مبنی ہوتی ہے، وہی تحقیق بعد میں ایک سند کے طورپر تسلیم کی جاتی ہے۔ ایسا ہی اس کتاب میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
آپ نے اس ادبی سرچشمے میں جن شعراء کے بارے میں لکھا ہے، وہ تفصیل سے لکھا گیا نہ کہ مختصر لکھنے پر اکتفا کیاہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سمجھدار اور ذہین لوگ خود اپنے لئے نہیں جی رہے ہیں بلکہ وہ دوسروں کے دُکھ درد کو محسوس کرکے اس کو زبان دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسی دُکھ درد کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔سبزار احمد بٹ نے یہی بیڑا اٹھایا ہے اور اپنے مقالوں سے لوگوں کو فیضیاب کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مقالے پُر مغز اور نصیحت آموز ہوتے ہیں وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں یا پیش کرتے ہیں، اس سےقارئین کو اپنا شیدائی بناتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ادبی دنیا میں اس وقت ان کے شیدائی بہت ہیں۔عصری فکروفن کو ادبی حلقوں میں کافی سراہنا ملی ہے اتنا ہی نہیں یہ تصنیف اردو دنیا کے علاوہ اہل ادب کی تشنگی بجھا کر رہے گی اور اہل علم سے میری رائے ہے کہ وہ اس نایاب گوہر کا مطالعہ کرکےاپنے علم میں اضافہ کریں۔
رابطہ۔7006259067
[email protected]