کوئی بھی سنسنی خیزنازک معاملہ یا واقعہ ہو اُس پر وزیر اعظم مودی کی خاموشی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ کو’’ مَون موہن سنگھ ‘‘کہہ کر چڑانے والے مودی اکثر و بیشتر چپ کا روزہ رکھ کرڈاکٹر من موہن سنگھ کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔اس لئے انہیں کچھ لوگ بول بچن والے وزیر اعظم بھی کہتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا کہ یہ بھی کوئی ایک ’’جملہ سازی‘‘ ہوگی۔حریف تو جانے دیجئے،اب ان کے حلیف بھی ان کی اس’’ ادائے دلبرانہ‘‘ کا مزہ لیتے ہیں۔دسہرہ ریلی میں شیوسینا چیف اُدھو ٹھاکرے نے یہ کہہ کران کاتمسخر نہیں اُڑایا تو کیا کیا کہ ’’کیوں نہیں کہہ دیتے کہ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ بھی محض ایک جملہ تھا!‘‘ ۔ لفظ’’جملہ‘‘ ( ڈائیلاگ بازی ) اب سیاسی گلیاروں میں طنزاً مودی سے ا س قدر منسوب کیا جارہاہے اور ہر خاص و عام میں انہیں ’’مسٹرجملہ باز‘‘ کے طور یاد کیا جارہا ہے کہ ممکن ہے کہ اگلے برسوں میں آکسفورڈ ڈکشنری میں یہ لفظ سیاسیات میں اپنی جگہ بنا لے اور اس سے وہ لیڈر مراد لیا جائے جو حقائق کے بجائے کھلی آنکھ کے سپنے بیچے یا ڈائیلاگ مارمار کر اپنا الو سیدھا کرے۔ اردو اور اردووالوں کیلئے یہ خوشی کی بات ہوگی کیونکہ انگریزی، ہندی اور مراٹھی اخبارات میں اسے دیکھ کر گوناگوں خوشی کا احساس ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ڈر ستائے جاتا ہے کہ کہیں اس کو بطور ہندی لفظ شامل لغت نہ کیا جائے۔
بہر حال وزیر اعظم نے ابھی تک تہلکہ آمیز ’’می ٹو مہم‘‘ پرزبان نہیں کھولی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ حالات کے رُخ کو دیکھتے ہوئے اپنے وزیر مملکت ایم جے اکبرکو استعفیٰ دینے کیلئے کہہ دیا کیونکہ یکے بعد دیگرے ۲۶؍خواتین ان پر جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کر چکی ہیں۔اس سے قبل اُتر بھارتیوں کے گجرات سے ا خراج پر بھی مودی جی نے کوئی لب کشائی نہیں کی تھی اور آج تک بھی وہ اس بارے میں لب بستہ ہیں۔وزیر اعلیٰ گجرات وجے روپانی کتنا ہی لکھنؤ جاکریوگی کے ساتھ کیوں نہ فوٹو سیشن کر لیںجب تک زمینی سطح پر حملے رُکوانے کا کام نہیں کریں گے،حملے نہیں رُکیں گے ۔در اصل معاملہ یہ ہے کہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا محسوس ہوتا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ منفی سیاست کھیل کر گجراتیوں کے ووٹ حاصل کرنے میں اسے آسانی ہوگی، خواہ ملکی ایکتا اور ریاستی امن وقانون کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔اس سے قبل بھی اور بر سر اقتدار آنے کے ساتھ ہی مودی جی نے محمد اخلاق کی ہجومی تشدد میں موت پر برسوں ایک لفظ بھی نہیں کہا جس سے حوصلہ پا کر آج بھی تشدد برپا کرنے والے پُر عزم ہیں اور آئے دن ’’موب لِنچنگ‘‘ کرتے رہتے ہیں۔وزیراعظم کی یہ دانستہ خاموشی ملک کو کہاں لے جائے گی اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا اور غیر ضروری خاموشی کو رضامندی کا نام دیا جاتاہے۔
۲۸؍ستمبر کو کیرالہ میں واقع ’’سبری مالا مندر‘‘ کے تعلق سے عدالت عظمیٰ کا جو فیصلہ آیا ہے کہ کسی بھی عمر کی عورت اب مندر میں داخل ہو سکتی ہے،اس کا بھی بی جے پی غلط فائدہ اُٹھانے میں لگ گئی ہے۔تقریباً مہینے کے ہر ریڈیو نشریات سے پی ایم مودی ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا ذکر ضرور کرتے ہیں اور بیٹیوں کی ترقی کی باتیں کرتے ہیںلیکن سبری مالا کے تعلق سے وہ خاموش ہیں۔اتنا ہی نہیں،شاید اپنی پارٹی کے رضاکاروں کو کھلی چھوٹ بھی دے دی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی دھجیاں اُڑائیں۔بی جے پی کارکنان کوعدالت عظمیٰ کے فیصلے کا قطعی احترام نہیں ہے کیونکہ اس فیصلے کی مخالفت میں بی جے پی لیڈران پیش پیش ہیں۔صوبے میں فی الحال بایاں محاذ کی حکومت ہے اور ان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ مذہب بیزار ہوتے ہیں،ایسے میں ان کا مندر ،مسجد یا چرچ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،اس لئے اُن کا مذہبی روایتوں اور اس کی پاسداری سے کیا لینا دینا؟بی جے پی لیڈروںنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وزیر اعلیٰ ایک دہریہ ہیں اور مندر کے معالات میں ان کے موقف کی کوئی حیثیت نہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ سبری مالا مندر ریاستی حکومت کے زیر نگرانی ہے اور اس وجہ سے تصادم کا ہونا طے ہے۔ویسے ریاستی حکومت عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو نافذ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔آر ایس ایس بھی اس معاملے میں کود پڑی ہے۔موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ایک بڑے طبقے کے مذہبی معاملات میں فیصلہ سنانے سے پہلے عدالت کو خاصا خیال رکھنا چاہئے۔وہ چاہتے ہیں کہ اس خاص مندر میں عورتوں کو داخل ہونے سے روکنا ہی چاہیے۔بھلا بتائیے آر ایس ایس چیف کے نزدیک عدالت ِعظمیٰ کی کیا اہمیت ہے۔اس کے علاوہ بھی ان کا رام مندر کے تعلق سے ایک بیان آیا ہے کہ مودی حکومت رام مندر کی تعمیر کا قانون پارلیمنٹ میں لائے یا پھرطلاقِ ثلاثہ کی طرح آرڈیننس ہی پاس کر دے جس کی رُو سے رام مندر کی تعمیر شروع کی جا سکے۔یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس رام مندرکا معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے اس کے تعلق سے بھاگوت جی کاایسا بیان دسہرہ ریلی کے موقع پر کھلے عام دیناکیا سگنل دیتا ہے؟
ایسا نہیں ہے کہ کیرالہ کے تمام ہندو سبری مالا مندر والے معاملے پر بی جے پی کے ساتھ ہیں،اس مندر پر بڑے ذات یعنی برہمنوں کا قبضہ ہے۔نائر فیملی کاشروع ہی سے اس پر تسلط رہا ہے۔یہی سبب ہے کہ چھوٹی ذات والے اور اوبی سی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے اس احتجاج کا حصہ نہیں ہیں اور انہیں کی تعداد ریاست میں زیادہ ہے لیکن بی جے پی اس موضوع کو ۲۰۱۹ء کے لئے استعمال کرے گی۔کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ سبری مالا جنوب میں بی جے پی کیلئے ایودھیا ثابت ہو سکتا ہے۔اس کا استعمال کر کے وہ پارلیمنٹ کی دو تین سیٹیں جیت سکتی ہے اور یہ اس کیلئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ویسے بھی تریویندرم کی ششی تھرور کی سیٹ پر اس نے گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں اچھی خاصی ٹکر دی تھی۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کے پاس مندر کی سیاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔شمالی ہند میں وہ اس کا استعمال اچھی طرح کر چکی ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ بھی کرے،اسی کے ساتھ ہی جنوبی ہند میں بھی وہ اس کا استعمال کرنا چاہتی ہے۔عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے خلاف جو اس نے تریویندرم میں بھیڑ اکٹھا کی اسے دیکھ کر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کیرالہ میں وہ اپنا گراؤنڈ تیار کر رہی ہے اور اس کے ارادے بہر حال کانگریس کے حق میں ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ اس پورے معاملے میں کانگریس ،بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم دکھائی دے رہی ہے۔یہ بڑے ہی افسوس کا مقام ہے ۔اس تناظر میں غلام نبی آزاد کا یہ بیان کہ’’کانگریس کے ہندو امیدوار الیکشن مہم میںمجھے بلانا نہیں چاہتے‘‘ نئے کانگریس کی نوید سناتے ہیں اورمسلمانوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
بہر حال اگرچہ سترپچھتر سال کی کھیتی کے بعد آر ایس ایس اس مقام پر پہنچا ہے لیکن مودی کے ۴؍ برس طویل اقتدار میں جو پھل اسے کاٹنے کو ملے ہیں وہ حیرت انگیزہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اپنے لئے جو کیا تو کیا ہی ہے ،کانگریس کے نظریات کو بھی بدل کے رکھ دیا ہے۔اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کانگریس کے اندر بھی آرایس ایس نوازلوگ ہیں۔جس راہل گاندھی کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ کسی مذہب کو ماننے والے نہیں ہیں،اسی راہل کو کانگریس کے تھنک ٹینک نے سمجھا دیا ہے کہ کامیابی چاہیے تو مندر مندر گھومو ۔جواہر لال نہرو کی یہ پالیسی نہیں تھی،اندرا گاندھی کی بھی نہیں تھی اور راجیو گاندھی بھی اس سے محفوظ تھے۔تو کیا سونیا گاندھی کو گھٹن نہیں ہوتی کہ وہ اپنے سپوت سے یہ کام کروا رہی ہیں؟کیا اقتدر کی ہوس یہ سب کرنے پر مجبور کر رہی ہے؟ہم سب کو پیارادیش ہندوستان مل کر بچانا ہوگا۔ یاد رکھئے کہ ایک تقسیم ہم دیکھ چکے ہیں اور تباہی بھی۔اُس وقت بھی مسلمان ہی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چھب رہے تھے اور آج بھی وہی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے ۔مین اسٹریم کی دونوں پارٹیوں کاطریقہ کار کم از کم یہی ثابت کرتا ہے۔بی جے پی کے تیز طرار نیتا گری راج سنگھ ایک اور تقسیم کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ان کے مطابق ۲۰۴۵ء تک ہندوستان کی ایک اور تقسیم ہو جائے گی۔ممکن ہے کہ یہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں بھی شامل ہو اور اکھنڈ بھارت کی آڑ میں اس کی منصوبہ بندی کر رہا ہو لیکن ملک کے ذی ہوش لوگوں کو آگے آنا ہوگا ورنہ ملک کے تانے بانے کو بکھرنے سے روکا نہیں جا سکتا کیونکہ آر ایس ایس کے خفیہ عزائم اب کھلے عام ظاہر ہونے لگے ہیں۔اس سنگھٹن کو نہ کسی جمہوریت پر یقین ہے نہ ہی کسی عدالت پر۔ایسے میں اگر کانگریس بھی اس کی ہم نوائی کرے تو یہ خطرے ہی کی گھنٹی ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883