چنار کالونی شہر کی سب سے بڑی اور خوبصورت کالونی تھی۔ اس کالونی کے بیچ میں میر حمزہ کی پانچ کنال زمین کا قطعہ کھالی پڑا تھا۔ زمین کے بیچوں بیچ چنار کا ایک بہت پرانا پیڑ تھا، جس نے اپنی شاخوں کو چاروں طرف اس طرح پھیلایا تھا جیسے وہ پوری کالونی کی رکھوالی پر مامور ہو۔ شاید اسی لیے اس کالونی کا نام چنار کالونی رکھا گیا تھا۔
کالونی بہت ہی خوبصورت تھی۔ کشادہ سڑکیں، سر سبز لان اور قطار میں بنے رنگ برنگے ٹین پوش مکانات۔ شور و غل سے پاک صاف ستھرا ماحول۔ اس پر چنار کا یہ بلند و بالا پیڑ کالونی کی شان میں چار چاند لگاتا تھا۔
گرمیوں کے موسم میں یہ چنار انسانوں اور پرندوں کو تپتی دھوپ سے نجات دیتا تھا۔ اس کے نیچے لکڑی کی ایک بڑی چوکی بنی ہوئی تھی جس پر شام کے وقت کالونی کے بڑے بزرگ بیٹھ کر گپ شپ مار کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے تھے۔ بہت سے پرندوں کے آشیانے بھی تھے اس چنار پر۔
کریم بخش، جو ایک خانہ بدوش تھا،اسی پیڑ کے نیچے اپنا پھٹا پرانا خیمہ گاڑھ کر گرمیوں کے شب و روز گزارتا تھا۔ اور یہ عمل تیس سال سے جاری تھا، جسکی وجہ سے دونوں کی شناخت ایک دوسرے میں گھل مل گئی تھی۔ کریم بخش کی ہمسائیگی میں کالونی کے لوگ آسودہ حال تھے۔ جب بھی انہیں کوئی آڑا ترچھا کام پڑجاتا تو ایکدم کریم بخش کو بلا لیتے اسطرح ان کے گھروں میں کریم بخش اور اس کی بیوی کو آسانی سے کام ملتا تھا اور ان کی زندگی بڑے آرام سے چلتی تھی۔ کریم بخش کا دل چاہتا تھا کہ وہ یہ کالونی چھوڑ کر کبھی نہ جائے لیکن کشمیر میں شدت کی سردی کا آغاز ہوتے ہیں وہ جموں کے میدانی علاقوں کی طرف رُخ کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی جب کریم بخش مارچ کے مہینے میں اپنے کنبے کے ساتھ کشمیر پہنچا تو سیدھے چنار کالونی کی طرف چل پڑا۔کالونی پہنچ کر اسکے بوڑھے وجود پر جیسے بجلی گری۔اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب اس نے یہ دیکھا کی چنار کو کاٹ کر ایک طرف ڈھیر کردیا گیا ہے۔اسکا سر چکرانے لگا ،پاؤں تلے جیسے زمیں کھسکنے لگی۔ وہ وہیں بیٹھ گیا اور اس کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی۔اس کی نظریں چنار کے ٹکڑوں پر گڑھی ہوئی تھی۔ اور وہ ایسا محسوس کررہا تھاجیسے چنار بھی اس کے غم میں برابر کا شریک ہو کر روئے جا رہا ہے۔
کریم بخش کی آنکھوں کے سامنے تیس برس پہلے کا وہ منظر چھا گیا جب وہ پہلی بار اپنے بیوی بچوں کو لے کر کالونی میں آیا تھا اور اسی چنار کے پیڑ نے اسے اور اس کے کنبے کو پناہ دی تھی۔ اسی چنار کی چھاؤں میں رہتے ہوئے اس کے بچے جوان ہوئے، ان کی شادیاں ہوئی، کریم بخش اور اس کی بیوی نے جوانی سے بڑھاپے میں قدم رکھا۔ چنار ان کی ہر چھوٹی بڑی خوشی اور ہر غم کا گواہ تھا۔ یہی چنار انہیں جھلستی گرمی اور برستی بارش میں پناہ دیتا تھا۔ وہ بہت محبت کرتے تھے اس چنار سے۔ یہ پیڑ ان کے لئے کسی ماں کے آنچل سے کم نہیں تھا۔
آج کریم بخش کو یقین ہو گیا کہ وہ بے گھر ہو گیا ہے۔ وہ اُٹھا اور نم آنکھوں سے چاروں اور ایک حسرت بھری نظر دوڑا کر ڈھیر ساری یادوں کے قافلے میں ٹوٹے قدموں کے ساتھ نئے ٹھکانے کی تلاش میں چل پڑا۔
پہلگام، اننت ناگ
رابطہ9419038028 8713892806