بشیر اطہر
شمیمہ اپنے بیٹے ظفر کو پیر بابا کے پاس لے گئی۔
بابا جی میرا بیٹا کئی روز سےکچھ کھاتا پیتا نہیں ہے اس کے پیٹ میں صرف مروڑیں آرہی ہیں، میں کیا کروں؟
اللہ ہُو!اللہ ہُو! .. سایہ ہے اس پر!!! کسی بڑی بھوتنی کا سایہ….. پیر بابا نے کہا۔
شمیمہ نے سنتے ہی ایک آہ نکالی!!!
ماں،ماں ہی ہوتی ہے اس کے دل ہی دل میں نہ جانے کیا کیا خیالات گردش کرنے لگے۔پیر بابا کے ارد گرد لوگ، جن میں زیادہ تر عورتیں تھی چہ میگوئیاں کرنے لگیں۔ کسی کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ظفر اپنی معصوم آنکھوں سے لوگوں کو تک رہا تھا۔ شاید کہہ رہا تھا کہ مجھ پر کسی بھوتنی کا سایہ نہیں ہے بلکہ مجھے ان عورتوں کی باتوں کے ساتھ ساتھ پیر بابا کی باتوں میں بھی بھوتنی کے آثار دکھائی دے رہے تھے.بھیڑ میں بیٹھی ایک عورت، جوشمیمہ کے بغل میں ہی بیٹھی تھی، نےشمیمہ سے مخاطب ہو کر مشورہ دیا کہ اس بچے کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاکر ملاحظہ کیا جائے تاکہ بیماری کا بھی پتہ چلے گا۔
تم کو ٹانگ میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں ہے، شمیمہ نے اس عورت کو غصے سے کہا، آتی ہیں مشورہ دینے۔کیاتم نے نہیں سنا؟ کہ بابا جی نے کہا کہ اس پر کسی بھوتنی کاسایہ ہے۔
اُس عورت نے اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر شمیمہ سے کہا کہ میں نے سب کچھ سُنا البتہ……..
کیا البتہ؟شمیمہ نے پوچھا۔
ان کی یہ باتیں ایک دو عورتیں سُنتی تھیں اور ایک عورت نے دھیمی آواز میں کہا کہ آنٹی سچ بول رہی ہے اس کو کسی کسی ڈاکٹر کے پاس ضرور لیجانا چاہیے کیونکہ اُس کی زرد آنکھوں، کمزور جسم اور سُکڑتے ہونٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ بیمار ہے۔
ہوں!شمیمہ بچے کو بابا جی کے قریب لے گئی اور بابا جی نے دو تین پھونک مار کر اس کے پیٹھ پر ایک دو زوردار تھپڑ رسید کیا اور شمیمہ سے کہا کہ بچہ اب ٹھیک ہے…….
شمیمہ ظفر کو گھر لےگئی مگر اس کی طبیعت میں کوئی بہتری نہیں آئی یہ سلسلہ قریب تین مہینے تک چلتا رہا۔ ظفر کا ماموں اس کو ایک سنیاسی کے پاس بھی لے گیا مگر بے سود……
ایک دن محلّے کی مسجد میں یہ اعلان ہوا کہ کل ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بیگاپور گاؤں میں لوگوں کا مفت علاج کرنے آرہی ہے تو محلے کے ایک نوجوان نے شمیمہ سے کہا کہ مجھے بھی وہاں جانا ہے اگر ہوسکے تو آپ بھی کل میرے ساتھ چلیں تاکہ ظفر کا علاج بھی ہوسکے۔
اُس رات شمیمہ اور اُس کے جورو کے درمیان اس بات پر کافی بحث وتکرار ہوئی کہ کل ظفر کو ڈاکٹروں کے پاس لے جایا جائے کہ نہیں۔ ظفر کا والد لے جانے کے حق میں تھا مگر شمیمہ انکار کررہی تھی اور اسی بات پر ڈٹی رہی کہ پیروں فقیروں نے کہا کہ اس پر بھوتنی کا سایہ ہے۔ اگلےروزصبح ہوتے ہی محلے کا وہ نوجوان ان کے گھر آیا اور آخر کار ان کو اس بات پر منا لیا کہ ظفر کا ڈاکٹروں سے ملاحظہ کرایا جائے گا۔ چٹھی نکال کر ظفر کو ایک ڈاکٹر سے ملاحظہ کروایا گیا اور ڈاکٹر نے اس کی نبض پکڑ کر….. او… نو…… ڈاکٹر صاحب نے قلم کو اپنے ہاتھوں کے نیچے دبا دیا اور شمیمہ سے کہا کہ آپ اس بچے کی کیا لگتی ہو؟
میں اُس کی ماں ہوں…….
آپ نے اس کا علاج آج تک کیوں نہیں کروایا؟
کروایا ڈاکٹر صاحب بہت کروایا،،،، بابا شمس کے پاس، سنیاسی رام داس کے پاس،پیر احمد کے پاس…..بہت سارے تعویذ لے لئے….. یہ دیکھو ڈاکٹر صاحب شمیمہ نے اس کے کپڑے اُٹھا کر کہا۔
ظفر کے گلے میں لگ بھگ پیروں، فقیروں کے ڈیڑھ دو درجن تعویذ اٹکے تھے…
شمیمہ نے گننا شروع کیا کہ فلاں کا تعویذ ہے یہ فلاں کا…….
ڈاکٹر صاحب نے ان کی بات کاٹ کر غصے سے کہا بس! …… بس! …… اسی لئے آج اُس کی یہ حالت ہے….. آپ بیماروں کو پیروں، فقیروں اور سنیاسیوں کے پاس لے جاتے ہیں……بچے کا علاج اب نہیں ہوگا……اس کو گھر لے جائیے……. نوجوان نے کہا ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے اس بچے کا……
اس کے دونوں گُردے ناکارہ ہوچکے ہیں، اگر دو مہینے پہلے اس کا علاج کروایا ہوتا تو یہ ٹھیک ہوا ہوتا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت……
یہ سُن کر نوجوان کے ساتھ ساتھ ظفر کے والدین کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی اور ایک وہ سبھی دوسرے کے چہرے دیکھ رہے تھے۔ شمیمہ زور زور سے رونے لگی… میں عقل کی اندھی ہوں مجھے تین مہینے پہلے ہی ایک عورت نے کہا تھا کہ ظفر کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جایا جائے مگر میں نہیں مانی…… ہائے رے میری قسمت…… یہ سُن کر وہاں لوگ جمع ہوگئے اور وہ جوان ڈاکٹر کے پاس گیا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا اب اس کا علاج نہیں ہوگا……ڈاکٹر نے ایک آہ بھری! اور کہا کہ اگر اس کاایک گردے کا انتظام ہوجائے گا تو چالیس فیصد بچنے کے چانس ہیں۔
گھر جاکر ظفرکے والدین آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ کون گردہ دے گا، آخر پر شمیمہ نے گردہ دینے کی حامی بھر لی۔ رات کے ساڑھے بارہ بچ چُکے تھے کہ ان کے گھر سے رونے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگ نیند سے اٹھ کر ان کے گھر کی طرف دوڑنے لگے تو اتنے میں ایک بُزرگ نے ظفر کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا……
قالو انا للہ وانا الیہ راجعون
���
خانپورہ کھاگ، بڈگام، موبائل نمبر؛7006259067