کہ بس چلے آؤ
زندگی کا بوجھ اتار کر دروازے پہ دستک دینی پڑتی ھے
موت کو پانے کے لئے زندگی صرف کرنی پڑتی ھے
پائی پائی چکانا پڑتا ھے
قرض کا احسان…
زندگی سانسوں کو تھکا دینے کے در پے رہتی ھے
خزاں کی زردی رنگوں میں زنگ گھولتی رہتی ہے
تم شاخیں پتے اور ثمر تیاگ دیتے ہو
نئے موسم کی آرزو میں
آرزوئیں انتظار کو ہرا دیتی ہیں
جب تک نئے موسم کا انتظار بوڑھا ہوجاتا ھے
بڑھاپا آنکھوں میں اْترتے ہی
آہٹیں ٹوٹنے لگتی ہیں
بوجھ بھاری ہے
گھنگرو سہہ نہیں پاتے..
سفر سمٹ جاتا ھے
نشان دھند میں کھو نے لگتا ہے
ہارمونیم کی مدھرتا خاموشی کی منوں مٹّی تلے دب جاتی ھے
ہلکی ہلکی ہوائیں پرندوں کے پنکھوں میں ٹھہر جاتی ہیں
گھونسلے میں پڑے تنکوں کے اندر پرانی سانسوں کی عبارت دہک اٹھتی ھے
دیوداروں پہ پھیلا دھواں پگل کر ٹپکنے لگتا ھے
اشک کا نیا موسم بن کر..
گماں کی سرحدوں میں اک نئی دھرتی جنم لیتی ھے
تمہارا آدم مری حوا
ایک دوسرے کی بانہوں میں
سمٹ کر کن فیکن کے ورد پہ ٹھہر جاتے ہیں
میں اپنے نئے گماں کی اور چل پڑا ہوں
زندگی میں تجھے سلام کرتا ہوں
تو نے مجھے مرنا سکھا دیا..!
علی شیدّاؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
فون نمبر9419045087،[email protected]