سرینگر// پولیس نے گائو کدل قتل عام سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ22متاثرہ کنبوں میں سے صرف6 کنبوں کو امداد فراہم کی گئی،جبکہ دیگر16 کنبوں کا اتہ پتہ معلوم نہیں ہے۔21جنوری 1990 میں پیش آئے گائو کدل سانحہ سے متعلق کیس میں پولیس نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کی۔کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے بتایا کہ پولیس ریکارڑ کے مطابق اس سانحہ میں22 افراد کی موت واقع ہوئی اور12زخمی ہوئے جبکہ 22میں سے6متاثرہ کنبوں کو ریلیف فراہم کی گئی۔یہ رد عمل شہر کے گائو کدل کو27قبل پیش آئے واقعے سے متعلق انٹرنیشنل فورم فار جسٹس کے چیئرمین محمد احسن اونتو کی طرف سے26دسمبر 2012کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے ڈویژن بینچ جن میں جاوید احمد کاوسہ اور مرحوم رفیق فدا شامل تھے ،میں دائر عرضی کے جواب میں آیا۔عرضی کی شنوائی کے دوران کمیشن نے اس وقت انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کے ایس پی کو اس سلسلے میں خصوصی تحقیقات جاری کرنے کی ہدایت دی۔4 برسوں کے بعد 13 مارچ 2017 کو بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے تحقیقاتی شعبے نے اس سلسلے میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ پولیس تھانہ کرالہ کھڈ سے موصولہ تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ1990میں گائو کدل میں22 شہریوں کی موت واقع ہوئی اور مزید ایک درجن زخمی ہوئے،جن میں16متاثرہ کنبوں کا اتہ پتہ نہیں ہے اور شاید انہوں نے اپنی رہائش تبدیل کی ہے،کیونکہ اس سانحہ کو گزرے25برس ہو چکے ہیںجبکہ دیگر کنبوں کو ریلیف فراہم کیا گیا۔ پولیس جواب میں مزید کہا گیا ہے اس بات کا ریکاڑ بھی دستیاب نہیں ہے کہ12زخمیوں کو کوئی ریلیف دی گئی یا نہیں۔ بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے تحقیقاتی شعبے نے اس سلسلے میں اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ پولیس اسپتال سرینگر اور دیگر اسپتالوں سے موصول ریکارڈ کے مطابق اس واقعے میں22افراد جاں بحق جبکہ42زخمی ہوئے۔سانحہ کے حوالے سے پولیس تھانہ کرالہ کھڈ میں کیس درج کیا گیاتاہم8برسوں کے بعد 1998 میں اس کیس کو ’’پتہ نہیں چلا‘‘ کے زمرے میں ڈال کر بند کیا گیاجبکہ عدالت میں حتمی رپورٹ عدلیہ کے تعین کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ ضلع ترقیاتی کمشنر سرینگر کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق سانحہ کے وقت رائج ایکس گریشا ریلیف کے تحت فی فرد25ہزار روپے 6جاں بحق ہوئے لوگوں کے نزدیکی رشتہ داروں کو فراہم کی گئی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ بات غیر واضح ہے کہ اس سانحہ میں جان بحق ہونے والے دیگر لوگوں کے اہل خانہ اور نزدیکی رشتہ داروں کو کیوں نظر انداز کیا گیا،اور انکے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں رکھا گیا۔