سرینگر//انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اینڈ ہیومن رائٹس نے سانحہ کپواڑہ کی 23ویں برسی کے موقعے پر سنیچر کوپرتاپ پارک میں احتجاجی دھرنا دیاجس میں سول سو سائٹی ممبران نے بھی حصہ لیا اورایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں 27جنوری 1994 کو پیش آئے واقعے کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اینڈ ہیومن رائٹس کے چیرمین محمد احسن اونتونے بتایا کہ 27جنوری 1994کو کپوارہ میں جو واقعہ پیش آیا جس میں 27افراد جان بحق ہوئے تھے، پر ایک مفصل رپوٹ تیارکرنے کیلئے سال 2012سے کام شروع کیا گیا اور اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ فوج کے جو اہلکار اس واقعے میں ملوث تھے، انکے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کپوارہ میں 25جنوری 1994کو فوجی اہلکاروں کی ایک ٹولی نے کپوارہ جاکر دکانداروں کو حکم دیا تھا کہ 26جنوری 1994کو ہڑتال نہ کریں بلکہ اپنی دکانیں اور بازار کھلے رکھیں۔ اونتو نے بتایا کہ فوجی اہلکاروں نے کپوارہ کے دکانداروں ، تجاروں اور پولیس والوں تک کو دھمکایا تھا ۔‘‘ انٹرنیشنل فورم فار جسٹس اینڈ ہیومن رائٹس نے اپنی رپوٹ میں لکھا گیاہے کہ فوجی اہلکاروںنے نہ صرف عام لوگوں کو دھمکایا بلکہ کپوارہ کی جامع مسجد کے امام سمیت کئی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا اور انہیں26جنوری 1994کو دکانیں کھلی نہ رکھیں کی پاداش میں سنگین نائج بھگتنے کیلئے تیار رہنے کو کہا گیا تھا ۔ فورم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کہ پھر 27جنوری 1994کو دن کے11بجے کسی اور جگہ گولی چلی جبکہ کپوارہ میں تعینات فوجی اہلکاروں نے اندھادھند فائرنگ میں27افراد کو جاں بحق کردیا۔اونتو نے بتایا کہ کپوارہ میں اسوقت تعینات ڈپٹی کمشنر جب فوج سے بات کرنے گئے تھے تو انہیں سرینگر تحقیقات کیلئے بلایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ واقعہ کا ایف آئی آر 4ماہ بعد درج کیا گیا کیونکہ پولیس بھی فوجی افسران کے دبائو میں تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ ایف آئی آر میں 18افراد کی موت کی تصدیق کی گئی ہے مگر اس واقعے میں 27افراد اپنی جان سے ہاتھ دو بیٹھے تھے۔ انہوںنے بتایا کہ مذکورہ واقعے میں ملوث فوجی اہلکاروں اور افسران کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنے کے بعد اگر چہ عدالت نے انہیں کئی نوٹس جاری کئے ہیں مگر قتل عام میں ملوث فوجی اہلکاروں نے کبھی بھی نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس واقعے میں ایف آئی آر جی ڈی ایس بخشی کے خلاف درج ہے مگر اس کو قومی ٹیلویژن چینل والوں نے ہیرو بنا رکھا ہے اور وہ آج بھی کشمیریوں کے قتل عام کی سفارش کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے قاتل ہی بھارت میں رائے عامہ پیدا کرنے والے بن گئے ہیں تو انصاف کیسے ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بین لاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالے تاکہ کپوارہ اور دیگر واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات عمل میں لائیں اور عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث لوگوں کو سزا دی جاسکے۔ اس موقعے پرمعروف تاجر شکیل قلندر نے کہا ’’ کشمیر میں عام لوگوں کے قتل عام میں ملوث لوگ ہی اب ٹیلی ویژن پر آکر رائے عامہ بناتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جنرل جی ڈی بخشی آج بھی ٹیلی ویژن پر کشمیریوں کو قتل کرنے اور جنگ کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور جب وہ افسر رہے ہونگے تو انہوں نے لوگوں کی کیا حال کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے قتل عام میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرکے قصور واروں کو سزا دلائیں۔