سرینگر// شہر خاص کے حول کو27برس قبل لہو لہو کرنے کا معاملہ اگرچہ ابھی بھی سلجھا نہیں ہے تاہم سانحہ میں پولیس کی ابتدائی جانچ کو بشری حقوق کے مقامی کمیشن کی تحقیقاتی ایجنسی نے سوالیہ نشان لگاتے ہوئے غیر جانبدار قرار دیا ہے۔ کورٹ آف انکوائری میں اگرچہ3افسران اور15اہلکاروں کو قصور وار ٹھرایا گیا تاہم انکے خلاف کی گئی کارروائی کو بھی صیغہ راز رکھا گیا۔1990میں میر واعظ محمد فاروق کے جلوس جنازہ پر حول میں اندھا دھند فائرنگ کے دوران پیش آئے واقعے کے اگر چہ27برس گزر چکے ہیں تاہم یہ سانحہ ابھی بھی حول کے لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ 1990میں حول کی سڑکوںپرجوخون کی ہولی کھیلی گئی اس کے چھینٹے زائد از2دہائی گزر جانے کے باوجود مارے گئے لوگوں کے رشتہ داروں اور اہل خانہ کے دلوں میںپیوست ہے۔ سانحہ میں زخمی ہونے والے اور معجزاتی طور پر بچنے والے لوگوں کے کانوں میں اب بھی گولیوں کی گنگناہٹ اور فورسز کی دندناہٹ سنائی دیتی ہے۔انٹر نیشنل فورم فار جسٹس محمد احسن اونتو نے سانحہ حول سے متعلق انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جس کے بعد28فروری2014کو اس وقت کے قائمقام چیئرمین فدا حسین نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی کو پیش کی گئی عبور ی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ سی آر پی ایف نے21مئی1990کو حول اور گوجوارہ کے نزدیک میر واعظ مولوی فاروق کے جلوس جنازہ میں شامل لوگوں پر کی گئی اندھا دھند فائرنگ کی تحقیقات عمل میں لانے کیلئے 3 اعلیٰ افسروں پر مشتمل ایک کورٹ آف انکوائری تشکیل دیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم پی سنگھ کی سربراہی والی کورٹ آف انکوائری ٹیم نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ 21مئی1990کوحول کے نزدیک جو فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ، اس میں سی آر پی ایف کی 69ویں بٹالین سے وابستہ 15اہلکاروں کو ملوث پایا گیا اور ان سبھی افسروںاور اہلکاورںنے عام شہریوں پر اندھا دھند گولیاں چلانے کا ارتکاب کیا۔ ڈی ایس پی ایس ایچ آر سی نے سربراہ کمیشن کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ شہری قتل عام میں ملوث 15سی آر پی ایف افسروں اور اہلکاروں کیخلاف بعد ازاں کوئی ایکشن لیا گیا یا کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی کہ نہیں ۔رپورٹ میں اس قتل عام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے 50سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکت کی مناسبت سے پولیس تھانہ نوہٹہ نے ایف آئی آر زیر نمبر 35/1990کے تحت کیس درج کیا تھا۔ پولیس تھانہ نوہٹہ میں درج رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس روز تین مقامات سے اے کے47رائفلوں کے خالی کارتوس برآمد کئے گئے جو یہ واضح کرتے ہیں کہ یہاں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی ہیڈ کواٹرس این سروادھانے اس معاملے میں اگرچہ سب سے پہلے تحقیقات کی تاہم وہ غیر جانبدارانہ تھی کیونکہ کسی بھی چشم دید گواہ کے بیان کو قلمبند نہیں کیا گیا اور سی آر پی ایف کے بیانات ہی قلمبند ہوئے۔