جموں // ریاستی سرکار کی طرف سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ سال2016 کی شورش کے طبعی اور مالی زخم اگرچہ ابھی مندحل نہیں ہوئے ہیں تا ہم وزیر اعلیٰ نے عوام کو گذشتہ برس کے پُر اشوب دور کے گرداب سے نکالنے کے عزم سے سال2017 ایک نئی لگن سے شروع کیا۔ مشکلات کا پوری زندگی سامنا کرنے کے لئے معروف محبوبہ مفتی نے انتظامیہ اور عوام کے مابین روابط بحال کرنا شروع کیا۔ ریاستی انتظامی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ نے محکموں کے سربراہاں کے ہمراہ دور دراز اضلاع کا دورہ اور ان کے سیکرٹریٹ کے افسران نے از خود علاقوں کی ترقیاتی ضروریات کا جائیزہ لیا۔ عوامی مسائل کا ازالہ یقینی بنایا اور ان کی بھی شکایات سُنی جن کی اب تک کہیں بھی داد رسی نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح وزیر اعلیٰ عوام کی دہلیز پر ان کی داد رسی کررہی تھیںاور پلوامہ ضلع جو2016 کی شورش کے دوران کافی متاثر ہوا،سے شروعات کی۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے پہلے’ عوام تک پہنچنے‘ کے پروگرام کے دوران لوگوں کے مسائل صبر سے سُنے۔ انہوں نے مانگیں پیش کیں اور کئی معاملات میں مسائل کے حل کے لئے محبوبہ مفتی نے موقعہ پر ہی ہدایات جاری کیں۔’ عوام تک پہنچنے‘ کے پروگرام کا دائرہ صوبہ کشمیر کے کپواڑہ، بڈگام، بانڈی پورہ، گریز، بارہ مولہ، گاندر بل، کولگام، اننت ناگ اضلاع تک بڑھایا گیا جبکہ جموں صوبے کے ڈوڈہ، کشتواڑ، کٹھوعہ، سانبہ اور راجوری اضلاع بھی پروگرام سے مستفید ہوئے۔ انہوں نے تین چار بار لیہہ اور کرگل اضلاع کا دورہ کر کے خطے میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کا جائیزہ لیا۔ وہ رات گئے تک عوام کی شکایات سُنتی رہیں اور ضلع ڈوڈہ میں سلسلہ رات کے قریباً2 بجے تک جاری رہا اور انتظامیہ کو واضح ہدائت دی گئی کہ اگر کوئی اور بھی ملاقات کا متمنی ہو تو اسے روکا نہ جائے۔ پاڈر علاقے کے ایک بُزرگ نے کشتواڑ میں منعقدہ پروگرام کے دوران کہا ہم نے وزیر اعلیٰ کو ہمیں بہت کچھ سناتے ہوئے دیکھا ہے لیکن پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ نے ہمارے مسائل سن کر انہیں لکھتے اور ہدایات جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے سال2016 کی شورش میںنوجوانوں کے خلاف درج معاملات جائیزہ لینے کی ہدایت جاری کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے2008 سے2015 تک ان5 ہزار نوجوانوں جنہوں نے سنگین جرائم کا ارتکاب نہیں کیا تھا، کے خلاف درج معاملات خارج کرنے کی بھی ہدایت دی۔ ریاست میں حکومت ’ڈیلی ویج‘ کلچر کا مسئلہ درپیش تھا، جنہیں پورے ماہ کام کرنے کے باوجود معقول تنخواہ نہیں ملتی تھی اور اکثر کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ا نسان دوستی اور ہمدردی کی ایک شاندار مثال قائم کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے60 ہزار نوجوانوں کی ملازمتیں باقاعدہ بنانے کا وہ انقلابی فیصلہ لیا جس سے گذشتہ حکومتیں کترا رہی تھیں۔وزیر اعلیٰ متواتر یہ کہتی آئی ہیں کہ ریاست کے تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت لازمی ہے جو ان کے نزدیک دائمی امن کے قیام کے لئے واحد راستہ ہے۔ ان کی متواتر کوششوں کے سبب ہی مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر کے لئے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرنے کا فیصلہ لیا جنہوں نے اب تک ریاست کا تین بار دورہ کر کے سینکٹروں گرؤپوں اور وفود سے ملاقات کی۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اُمید ہے کہ یہ عمل جاری رہے گا اور ریاستی عوام کے لئے بہتر نتائج پرمنتج ہوگا۔