اکیسویں عیسوی صدی کا یہ اٹھارہواں سال ابھی ایک نوزاید بچے کی طرح معصوم اور پاک ہے ۔ اس کے دامن پر کوئی داغ نہیں، کوئی دھبہ نہیں کسی بربادی کا المیہ اور کسی سانحے کا خون اس کے وجود کا حصہ نہیں ۔لیکن عالم انسانی کی کشاکش کا بوجھ بیتے ہوئے سال کی وراثت کے بھیانک سائے کے ساتھ اس کے گرد موجود ہے ۔اس کے ڈی این اے میں انسانی تاریخ کی عظمتیں بھی ہیں اور کشت وخون بھی۔ اسی ڈی این اے میں اس کی اور عالم انسانی کی تقدیرپوشیدہ ہے ۔ہر ایک سال انسانی تاریخ کے تسلسل کا پڑاو ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ کا ایک ورق پلٹ جاتا ہے اور ایک نیا ورق شروع ہوتا ہے۔ہرگزرا ہوا سال انسان کا ماضی ہوتا ہے اور انسان کیلئے علم اور تجربات کے خزانے چھوڑ جاتا ہے ۔ماضی کی اہمیت یہی ہے کہ یہ حال اور مستقبل کے راستے متعین کرنے کے کام آتا ہے ۔
کروڑوں سال پہلے جب حضرت آدم علیہ السلام کو تن تنہا دنیا کے ویرانے میں اُتارا گیا تو اسے معلوم نہیں تھا کہ سزا کے طورپر بخشی ہوئی اس دُنیا کے ڈراونے فلک بوس پہاڑوں ، اتھاہ سمندروں ، خوفناک جنگلوں ، طوفانی ہواوں ، لرزہ خیز بجلیوں اور ہیبت ناک صحراوں میں ہی اس کے لئے وہ سب کچھ ہے جو ایک عظیم الشان تہذیب کی تعمیر کیلئے اس کی ضرورت ہے ۔
دستِ قدرت کی بے پناہ فیاضیوں نے اسکے لئے اسباب پیدا کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کی اور اس کی نسلیں ہوا کے دوش پر اُڑنے کے قابل ہوگئیںاورنے ہر شے کو اپنا مطیع بناکر چھوڑا ۔ ستاروں اور سیاروں کے اسرار اُن پر افشاء ہوئے اور ہر گزری ہوئی ساعت کے تجربات نے علم کا خزانہ تیار کیا جس کی زمین پر تہذیبوں کے مینار کھڑے ہوئے اور انسانی تاریخ کا سفر آگے بڑھتا گیا ۔کروڑوں برس پر محیط اس سفر میں انسان کی عظیم کامیابیوں اورکامرانیوں کے ساتھ قدم قدم پر بربادیوں ، تباہیو ں اور خونریزیوں کی تاریخ بھی رقم ہوتی رہی۔ انسان کے اندر وہ باغی ، وہ حیوان اور وہ نافرمان برابر موجود رہا جس نے اسے جنت سے نکلوادیا ۔ اور دنیا کے کٹھن امتحان میں جھونک دیا ۔ اللہ تعالیٰ کے مہربان ہاتھوں نے اس کی دنیا سنوارنے کیلئے پیغمبر بھیجے اوراس نے ان کے ساتھ بھی نافرمانیاں اور زیادتیاں کیں یہا ں تک کہ پیغمبر آخرالزماںﷺ ایک مکمل دین ،ایک مکمل ضابطہ حیات لیکر اس کے پاس پہنچااور عالم انسانی نے ایک بھرپور انقلاب کا وہ زمانہ دیکھا جس میں حیوانی جبلتیں نابود ہوگئیں ۔پھر انہی ہاتھوں نے اس انقلاب کو بھی پلٹ کر رکھ دیا جنہوں نے اس کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا تھا ۔
چودہ سو سال گزرچکے ہیں اور اس عظیم تر انقلاب کے وارث آج تباہ حالی کے سنگین بحران سے دوچار ہیں ۔قبلہ اول بھی ان سے چھینا جارہا ہے اور مدینہ منورہ پر بھی میزائل گرائے جارہے ہیں پورا جزیرہ العرب اس کے باشندوں کے خون سے ہی لالہ زار ہورہا ہے اورترکی، ایران و پاکستان کے حالات بھی دگر گوں ہورہے ہیں۔
جس اُمت کو انسانوں کی یہ دنیا سنوار نے کیلئے تیار کیا گیا تھا اس نے خود کو ہی برباد کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ ایک اندوہناک المیہ تو ہے ہی لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں کو اپنی تمام بربادیوں کا ذمہ دار قرار دیکر اپنی کوتاہیوں ، اپنی غلطیوں اوراپنی نافرمانیوں سے صاف دامن بچا کر قرآن کے اس فرمان کو فراموش کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اس بات سے واقف ہے جو خود انسان کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے ۔ دین محمد یؐ کی ہزاروں شاخیں نکال کر مسلمان اللہ سے دین کی عظمت اور سربلندی کی دعا مانگ رہا ہے ۔ کوئی دیو بندی ہے ، کوئی بریلوی ہے ، کوئی سنی ہے ،کوئی شعیہ ہے ، کوئی اہل حدیث ہے ، کوئی حنفیہ ہے، کوئی شافی ہے ، کوئی اخوانی ہے کوئی روشن خیال ہے ،کوئی بنیاد پرست ہے، کوئی عربی ہے اور کوئی عجمی ہے ۔ مسلمان کون ہے ؟۔ ہر ایک کا ضابطہ حیات الگ ہے اور ہر ایک کا دعوی ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔ہر ایک اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ہر ایک کا رہبر اور رہنما کوئی اور ہی ہے۔ ہر ایک کی فکر کہیں اور سے ہی پھوٹی ہے اور کہیں اور سے ہی اس کا ضابطہ حیات آیا ہے ۔ اس مخزن سے کوئی سروکار نہیں رہا ہے جو پیغمبر آخر الزماں نے عطا کیا تھا ۔
سعودی عرب کے علماء تین طلاق پر فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ یہ جائز نہیں اور ہندوستان کے علماء اسے شریعت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ اس ایک معمولی سے معاملے پر اتفاق نہیں تو ضابطہ حیات کی بات کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ چودہ سو سال میں متفقہ ضابطہ حیات یا شریعت کی متفقہ تشریح مرتب نہیں کی جاسکی تو کیسے دین محمدی کی علمبرداری کا دعوی ہے ۔ دین محمدی کی اپنی نظریاتی قوت ہی ہے کہ اسلام کے بدترین دشمنوں میں وہ آج بھی پھیل رہا ہے ۔ قرآ ن پڑھ کر یورپ کے لوگ اسلام کی آفاقیت پر ایمان لاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے اعمال انہیں اسلام سے بیزار کردیتے ہیں ۔مسلمانوں نے اسلام کے معنی ہی بدل کررکھ دئیے ہیں ۔ ہر مسلمان آج یہ کہتا دکھائی دے رہا ہے کہ دنیا پر اسلام کا غلبہ قائم کرنا ہے حالانکہ اسلام دنیا پر غلبہ قائم کرنے کیلئے قطعی نہیں آیا ہے بلکہ انسانی دنیا کو ہر غلبے سے آزاد کرنے کیلئے آیا ہے ۔ مسلمان علم سے دُور ہے۔ تاریخ کے صرف ان ادوار سے اس کا واسطہ باقی رہا ہے جن میں مسلمانوں نے فتوحات کے جھنڈے گاڑھ دئیے ۔ اسے صلاح الدین ایوبی پر فخر ہے لیکن اس کے سوا تاریخ اس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی، وہ اپنی شکستوں سے سبق حاصل کرنے کا روا دار نہیں ۔
یہی حالات جب مسلمانوں کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کردیتے ہیں جہاں امریکی صدر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں تو اسلامی کانفرنس کے اٹھاون ممبران میں سے صرف بائیس ممبر اس اجلاس میں شامل ہوتے ہیں جس میں اس دلخراش فیصلے پر غور و حوض کرنا تھا۔اس اجلاس میں یروشلم کو فلسطین کا دارالخلافہ تو قرار دیا گیا لیکن اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کی کسی ایک ملک نے بھی بات نہیں کی ۔ مسلمان اپنی غلطیوں ، نافرمانیوں اور دہرے معیار سے اپنے آپ پر ہی ظلم نہیں کررہا ہے بلکہ وہ پورے عالم انسانی پر ظلم کررہا ہے کیونکہ اللہ نے اسے ہی عالم انسانی کا محافظ بنایا تھا اور اللہ ہر ایک چیز معاف کرسکتا ہے لیکن اس بات کو کبھی معاف نہیں کرسکتا کہ اس کے نام لیوا ہوکر اسی کو دھوکا دیا جائے ۔بیسویں صدی مسلمانوں کے زوال کی صدی تھی اور اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں یہ زوال انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ جیسے انسان کے ہاتھ میں دنیا کے سپر پاور امریکہ کا اقتدار آچکا ہے ، جو دنیا کی ہر قوم کو للکار رہا ہے ۔جزیرۃ العرب کے حالات اتنے تباہ کن کبھی نہیں تھے جتنے آج ہیں ۔ افغانستان عالمی کشاکش کا مرکز بنتا جارہا ہے اور پاکستان بری طرح سے اس کا شکار بن رہا ہے ۔ جس امریکہ کیلئے پاکستان نے اپنے ملک کووقف رکھا تھا اور جس کے تعاون سے امریکہ کا سب سے بڑا فوجی حریف سوویت یونین عالمی نقشے سے مٹ گیا اسی پاکستان کو ڈونالڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کا سرغنہ قراردیکر بھاری امریکی امداد سے محروم کردیا ۔ چین اور روس ایک دوسرے کے قریب آکر امریکہ کا مقابلکہ کرنے کی فکر میں ہیں ۔ شمالی کوریا اور امریکہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
مجموعی طور پر نیا سال عالم انسانی کیلئے ایک خطرناک چلینج کی صورت میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ انتشار اور ٹکراو کے مورچے کہاں تک پھیل جائیں گے اور انجام کار کیا ہونے والا ہے ۔ یہ دنیا اب تیر و تفنگ کی دنیا نہیں رہی ہے ۔ آنِ واحد میں دنیا سے انسانی آبادی کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ دوعالمی جنگجوں سے تودُنیا دوبارہ اُبھر سکی لیکن تیسری جنگ دنیا کے خاتمے کا اعلان ہوسکتی ہے ۔پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکراجائیں گے اور نسلِ انسانی کا خاتمہ ہوجائے گا ۔ایٹم بموں کی یہ دُنیا خاتمے کے قریب پہنچ رہی ہے ۔ہم برسوں کا حساب رکھ رہے ہیں اور سال ہمارے حساب رکھ رہے ہیں ۔مسلم ورلڈ کے پاس آج بھی وسائل کی قوت ہے جس کا سیاسی استعمال کرنے کا خیال گزشتہ صدی کے اواخر میں پیدا ہوا تھا لیکن اس کا موثر استعمال نہیں کیا جاسکا ۔ آج بھی اگر اس کا درست استعمال کیا جاسکے تو نہ صرف مسلم دنیا کی عظمتوں کا احیائے نو ہوگا بلکہ دنیا کو تیسری عالمگیر جنگ سے بھی محفوظ رکھا جاسکے گا ۔ لیکن اس خیال کو دفن کرنے کیلئے داعش اور القاعدہ جیسی قوتیں پیدا کردی گئی ہیں جنہوں نے مسلم ملکوں کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال کر ساری توجہ اپنی طرف مبذول کردی ہے ۔ اس لئے اس کا کوئی امکان نہیں کہ مسلم دنیا موجودہ محاذ آرائیوں کا نقشہ تبدیل کردے ۔ اس کے برعکس امکان یہی ہے کہ جزیرۃ العرب ہی عالمی محاذ آرائی کا مرکز بن جائے اور یہ قیا مت کا بگل ثابت ہوگا ۔ اللہ رحم کرے!
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر