ڈاکٹر ابرار رحمانی
سال ۲۰۲۴ ہندوستانی سیاست میں اٹھاپٹخ اور چھین جھپٹ کا سال رہا ہے۔ دراصل یہ انتخابی سال تھااور سبھی پارٹیوں نے اس اسلیکشن کو جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ہمارے چوکیدار نےروایتی طریقے کے سہارے الیکشن جیت لیا اور اقتدار کی کرسی پر مضبوط گرفت بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے،وہ جب بھی منہ کھولتا ہے تو اُس کے بول کی وجہ سے سارا ماحول بدبوداراور نہ خوش گوار ہوچکا ہے لیکن اس کے ماننے والوں کو اس میں خوشبو ہی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ گویا ۲۰۲۴ کاآغاز بھی دل شکن تھا اور اختتام بھی حوصلہ شکن۔ ۲۰۰۴سے ۲۰۱۴تک منموہن سنگھ کی سرکار تھی اور ۲۰۱۴ سے ۲۰۲۵تک مودی کی حکمرانی جاری ہے۔ مودی حکومت تھوڑ جوڑ کی سرکار چلا رہی ہے۔ منموہن سنگھ کی مددت کار دس سال رہی جب کہ مودی سرکار گیارہویں سال میں بھی جاری ہے۔ منموہن سنگھ نے آتے ہی ۲۰۰۵ میں مسلمانوں کی ترقی کے پیش نظر سچر کمیٹی کی تشکیل دی اور اس کمیٹی نے بہت جلد یعنی ۳۰ نومبر ۲۰۰۶ کو اپنی سفارشات کے ساتھ اپنی رپورٹ پیش کردی اور جلد ہی کابینہ نے ان میں سے بیشتر سفارشات کو منظوری دے دی۔ لیکن اپوزیشن کا مخالفت جاری رہی۔ ۲۰۱۴ میں مسلمان پھروہیں آگئےوہیںجہاں سے چلےآرہے تھے۔سچر کمیٹی نے ان بات پر زور ڈالا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ چنانچہ اس پر فوری توجہ دلانی چاہیے لیکن گیارہ سال گزر گئے ہیں اور ہرپرانا سال نئے سال کی چمک دمک کے ساتھ آتا ہے اوروہ چمک دمک جس سے ہماری آنکھیں کھیرا ہوتی ہیں روپ دھارن کرلیتا ہے۔ سال ۲۰۰۴ پورے دم خم کے ساتھ آیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنی بدنیتی اور چھین جھپٹ کی خصلت کے پیش نظر اکیسویں کے پہلے ۱۴ سال بخیر کو عافت گزر گئے لیکن اس کے بعد اب تک کا پورا دور نفرت اور نفرت پر جی رہا ہے۔
سچر کمیٹی سفارشات پر عمل کراتے ہوئے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کرلینا چاہیے کہ مسلمان بحیثیت قوم ایک ہیں اور سارے مسلمان ہندوستان میں انتہائی پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ہیں اور انھیں اسی بنیاد پر سماجی ، سیاسی، اقتصادی اور تعلیمی ہر مجاذ پر اس کو اس کا جائز حق ملنا چاہیے۔ جہاں تک تعلیمی پسماندگی کے زمرے میں مسلمانوں کے لیے ریزویشن کی بات ہے یہ مسئلہ بھی ابھی تک ٹہری کھیر ثابت ہوئی ہے۔ منموہن سنگھ حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پاس کرکے ایک ایکٹ کے ذریعے اس کو یقینی بنانے کی کوشش کی تھی۔ دوسرے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کے ریزویشن کو لے کر جو واویلا مچا رہتا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست اور سیاسی حصولیابی سے اٹھ کر اس مسئلے پر غور کیا جائے اور عمل درآمد کیا جائے۔ اسی میں سیاسی پارٹیوں کی بھلائی ہے۔حکومت کی بھلائی ہے اور مسلمانوں کی بھی ۔ ارادے اور وعدے بہت ہوچکے وعدوں کی ریوڑیاں بہت بانٹی جاچکی ہے اور باٹی جاتی رہیں گی۔ آشواسن کا جھنجھونا بھی بہت دیا جاچکا ،اب وقت ہے صرف اور صرف ایماندارانہ عمل درآمد کا۔ دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اب خواب غفلت سے جاگ جانا چاہیے۔
رابطہ۔9911455508
[email protected]