سال2018تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور 2019کا سورج طلوع ہو ا ہے، اس امید کےساتھ یہ برس کرہّ ارض پر رہنےو الوں کےلئے امن و شانتی، ترقی و کامرانی اور جذبۂ انسانیت کے فروغ کا سبب بن سکے تاکہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں عام انسان کو جن انسانیت سوز اور تکلیف دہ حالات کا سامنا ہے، اُن سے راحت کا سامان میسر آسکے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سطح پر شروع ہوئی سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ اور تصادم آرائیوں کا ماحول وقت کے ساتھ ساتھ خطے اور علاقے تو بدل دیتا ہے لیکن اپنی اُن شدتوں کے ساتھ کسی نہ کسی جگہ پر برابر اپنی جلوہ آرائیوں میں مصروف رہتا ہے اور ان حالات میں عام لوگوں کو کیا کچھ دیکھنا اور سہنا پڑتا ہے وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ آج کے دور میں جب کہ دنیا پر انٹرنیٹ کے توسط سے سوشل میڈیا کی حکمرانی ہے، کرہّ ارض کے کونے کونے میںپیش آنے والے واقعات آنکھوں کے پردے پر چھاتے رہتے ہیں۔ وہ عرب و عجم میں پیش آرہی خانہ جنگیاں ہوں ، افریقی ممالک کے اندر قتل و غارت کے واقعات ہوں یا برما جیسی چھوٹی اور غیر اہم مملکت کے اندر روہنگیا اقلیتوں کی نسل کشی یا پھر مغربی و یورپی ممالک کے اندر نسلی اور مذہبی تعصبات کے لہراتے ہوئے پھر یرے، جو آنےو الے ایام میں ایک نئی عالمی تصادم آرائی کےلئے راہ ہیں ہموار کر سکتے ہیں۔ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری جانب انسان کی ترقی کے پیمانے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ عالم ارضی کی بنیادیں تیزی کے ساتھ متاثر اور متزلزل ہو رہی ہیں عالمی حدت میں متواتر اضافہ سے ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں پانی کے ذخائر میں تیزی کے ساتھ پیش آنے والی کمی سے انسان کی بنیادی ضرورت زراعت کے شعبے کا ڈھانچہ سکڑ رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگوترس نے بھی سال کے اختتام پر یہ بات کہی کہ سال 2019عالمی ادارے کےلئے تنازعات کا حل تلاش کرنے اور تبدیلی ہو رہی موسمی حالت کے منفی اثرات انسان پہ کم کرنے کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ انہوں نے انتہا پسندی اور عدم برداشت کے عالمی فروغ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ عالمی سطح کی سیاسی قیادت کو اس کے تاریخی اور موجودہ وجوہات کی نشاندہی کرکے انکا ازالہ کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔حقیقت بھی یہی ہے کہ تنازعات اور مناقشات کا حل تلاش کرتے وقت انکے تاریخی پس منظر پر نظری ضرور رکھی جانی چاہئے مگر ارباب اقتدار کی جانب سے سیاست کے سامنے چونکہ انکی سیاسی ضروریات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے، چنانچہ اس کے نتیجہ میں نت نئے بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، جن سے نمٹنے کےلئے نئی پالیسیاں مرتب ہوتی ہیں، نتیجتاً زمینی سطح پر معاملات مزید بگڑجاتے ہیں، ریاست جموںوکشمیر بھی سال 2018کے حوالے سے نہایت بدقسمت رہا ہے۔ متواتر ہلاکتوں نے المناکیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بستیاں، گلی کوچے اور سڑکیں انسانی لہو سے سرخ ہو تی رہی ہیں اور اس سے جو عوامی نفسیات مرتب ہوئی ہے وہ کسی بھی انداز سےعالم انسانیت کے لئے مثبت اور معقول نہیں ہوسکتی۔ انسانی جسموں پہ لگے زخم مندمل ہوسکتے ہیں مگر روحوں پر لگی ضربوں کا علاج کہاں سے ڈھونڈا جائے، اسکا احساس غالباً سیاسی خیموں کو ہے ہی نہیں، جبھی تو اس کشت و خون اور تباہی و بربادی کے کھیل کو بھی سیاسی تیر اندازی کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جاتا۔ سال رفتہ میں پی ڈی پی اور بھاجپا کے اتحاد والی حکومت بھی ا سی سیاست کی نذر ہوگئی، حالانکہ جس وقت یہ اتحاد قائم ہوا تھا، تو ایک اُمید پیدا ہو چلی تھی کہ دہلی میں برسراقتدار حکمرانوں کی ریاست کے اندر سریر آرائے اقتدار ہونےسے حالا ت بہتر بنانے میں مدد ملے گی، لیکن2017میں شروع کی گئی مذاکرات کاری بالآخر ایک ڈھونگ اور وقت گزاری کے سوا کچھ ثابت نہ ہوسکی۔ گزرے برس کے دوران بھارت اور پاکستان درمیان کشیدگی کی سطح ہر دن کے ساتھ بڑھتی رہی نتیجتاً ایل او سی پر دونوں جانب لوگوں کو تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ جموںوکشمیر کے مسئلے کو زمینی تنازعہ کے طور پر پیش کرنے کے جو جتن 2018میں ہوئے ہیں اس کے چلتے یہ صاف دکھ رہا ہے کہ ریاستی عوام کے دکھ درد کو 2019میں ہونے والے انتخابات کےلئے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، ایسے میں فوری بہتری کی توقع کی جائے تو کیسے؟ انسانی فطرت چونکہ اُمیدوں کے سہارے زندہ رہنے کا نام ہے، لہٰذا یہ اُمید قائم ہے کہ جموںوکشمیر کے عوام کو امن و سکون تحفظ و ترقی کا ماحول میسر آئے۔ بھارت اور پاکستان کے سیاسی خیموں کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاستدانوں، خواہ وہ مین اسٹریم سے تعلق رکھتے ہوں یا مزاحمت سے، میں بھی وہ جذبہ بیدار ہو جائے، جو انہیں ریاستی عوام کے دُکھ درد کو سمجھنے کا حوصلہ عطا کرے اور عوام کو ہرپل ملنے والے کچوکوں سے راحت نصیب ہو۔