ریحانہ شجر
یہ ان دنوں کی بات ہے جب دفتروں میں کمپیوٹر پر کام کرنا شروع ہونے لگا تھا۔ انتظامی امور کا مرکزی دفتر ہونے کی وجہ سے ہمارے آفس میں سب سے پہلے کمپیوٹر نسب کئے گئے ۔ نئی مشینوں یعنی کمپوٹر پر کام کرنے کے لئے کچھ نئے تربیت یافتہ لوگوں کو ان پر کام کرنے کے لئے منتخب کیا گیا۔ ہمارے آفس میں بھی ایک نئی لڑکی آگئی۔جس کا نام مہرو تھا۔ میرے ساتھ اس کی اچھی بنتی تھی باقی لوگوں سے زیادہ رابط نہیں رکھتی تھی۔
مہَرو بہت ہی خوبصورت اور خاموش طبیعت لڑکی تھی۔ اس کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا اور جاذب تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک حیا پرور سکون جھلکتا تھا۔ اس کی صورت قدرت کے کمال فن کا ایک عظیم شاہکار تھی۔ ہمارے آفس کے دوسرے سیکشن میں ایک بندہ اچھے عہدے پر فائز تھا جس کا نام واحد تھا، جو درمیانی قد اور سانولے رنگ کا ایک خوب رونو جوان تھا۔وہ مہرو میں دلچسپی لینے لگا۔دلچسپی ایسی کہ جہاں مہرو وہاں سایہ بن کر واحد اس کے دائیں بائیں آ ہی جاتا تھا۔ واحد کو کام ہو نہ ہو وہ یوں ہی دن میں ہمارے آفس کے بےشمار چکر لگاتا تھا۔ جب بھی موقع ملتا وہ مہرو کے سامنے مسکرا کر مہرو کے چہرے کو پلک جھپکے بغیر تکتا رہتا تھا۔اس کے برعکس مہرو کو واحد میں رتی بھر بھی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ واحد کو اس طرح نظر انداز کرتی تھی جیسے اس نے کبھی واحد کو دیکھا ہی نہ ہو۔ واحد کو دیکھ کر مہرو کا موڑ بہت خراب ہوتاتھا۔ واحد جب بھی مہرو سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا تو مہرو خاموش کمپیوٹر پر نظریں جمائے اپنے کام میں مصروف ہو جاتی تھی ۔
ایک دن مہرو نے مجھ سے کہا میڈم میں اس آفت کی وجہ سے بہت پریشان ہو گئی ہوں۔
میں سمجھ گئی وہ واحد کو ہی آفت کہتی ہے۔ میں نے پھر بھی پوچھا ’کون ہے یہ آفت جس نے تمہیں پریشان کیا ہے‘۔
وہ کہنے لگی میڈم آپ کو پتہ ہے میں کس کے بارے میں بات کر رہی ہوں۔ اس کے روئیے نے میرا جینا حرام کردیا ہے ۔مہربانی کرکے مجھے اس واحد نام کی آفت سے آزادی دلائیں۔
ہم نے اپنی طرف سے واحد کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ، پر مجال ہے کہ واحد اپنی حرکتوں سے باز آئے۔ اس نے کسی کی ایک نہ سنی، الٹا اس نے کہہ دیا کہ’ مہرو میں میری جان بستی ہے میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ، چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے‘۔…. ایک دن… یہ بات ہیڈ آف ڈویژن تک پہنچی تو انہوں نے مداخلت کرکے مہرو کو سمجھایا کہ لڑکا اچھا ہے، اس بارے میں سوچ کر فیصلہ کریں۔لیکن مہرو نے اس مشورے کو سرے سے مسترد کردیا۔ یہ بات واحد کو بھی سمجھائی گئی مگر وہ دونوں اپنے اپنے فیصلوں پر اٹل رہے۔ شاید واحد کو یقین تھا کہ مہرو ایک دن اس کی محبت قبول کرے گی۔
میں کبھی کبھی سوچ میں پڑھ جاتی تھی کہ قدرت کے کھیل بھی کتنے نرالے ہیں، واحد کے دل میں مہرو کےلئے اس قدر محبت ڈال دی کہ وہ تو مہرو کے عشق میں اس قدر دیوانہ ہو چکا تھاکہ اسکو ا پنی آن بان اور رتبے تک کا خیال نہیں تھا اور دوسری طرف مہرو جس کے دل میں واحد کے لئے نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر کار محبت اور نفرت کی اس لڑائی میں کس کی جیت ہوگی اور کس کی ہار۔
مہینے گزر گئے۔موسم سرما کی ابتداء تھی۔ وادی کے خوبصورت چہرے پر بادلوں کی لمبی سیاہ نقاب پڑگئی تھی۔مہرو اور میں حسب معمول بس سٹاپ پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک واحد گہرے بھورے رنگ کا سوٹ ،سفید قمیض اور خوبصورت ٹائی پہنے سامنے آگیا۔ عین اسی وقت میرے فون کی گھنٹی بجی میں اس میں مصروف ہوگئی ۔ واحد اور مہرو میں کیا گفتگو ہوئی مجھے نہیں پتہ۔ فون اٹینڈ کرنے کے بعد میں مہرو کی جانب بڑھنے لگی تو دیکھا مہرو کے چہرے پر غصے کی لہر دوڑ چکی تھی۔ میں نے مہرو کے غصے کی وجہ جاننے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے خاموشی اختیار کی ۔ اس کے بعد اچانک جیسے مہرو کی خاموشی کا باندھ ٹوٹ گیا تھا اس کے منہ سے ایک دم نکل گیا ، ’گژھ ژء جان مرگ‘(جا تو لقمہ اجل ہوجا) ایسے میں ہماری بس آگئی اور مہرو اور میں بیٹھ کے نکل گئے۔ ٹھیک آدھے گھنٹے کے بعد ہم آفس کے صدر دروازے پر پہنچ گئے۔موسم کی وجہ سے آفس کے گراونڈ میں قدم رکھتے ہی یوں لگ رہا تھا جیسے صبح ہوتے ہوتے ہی شام ہوگئی ہے۔
چونکہ ان دنوں حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا،ابھی اس پل سب کچھ ٹھیک ہوتا، تو اگلے پل میں سب کچھ تہس نہس ہوا ہوتا تھا۔
عجیب سی افراتفری تھی اور آفیسرس اور دیگر لوگ جو ہم سے پہلے بہنچ چکے تھے واپس گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے۔ مجھے سیکورٹی آفسر پر نظر پڑی اور میں نے اسے پوچھا کیا وجہ سب واپس کیوں لوٹ رہے ہیں ؟ اس نے مایوس کن لہجے میں کہا کہ کچھ دیر پہلے واحد صاحب سڑک حادثے میں جاں بحق ہوگئےہیں۔ سب لوگ وہیں جارہے ہیں۔
���
وزیر باغ، سرینگر
[email protected]