ڈاکٹر میر ساجد حسین
۱۔ سادگی :سنن ابن ماجہ 1905کے حوالےسے فرمایا گیا ہے (بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو)ایک زمانے میں کشمیر کی سرسبز وادیوں میں شادیاں سادگی،خلوص روایات کی علامات ہوا کرتی تھیں جذبہ ایثار کوٹ کوٹ کر بھرا رہتا تھا۔کسی علاقے یامحلے میں کسی گھر کی شادی سارے محلے یا علاقے کی شادی تصور کی جاتی تھی ۔پڑوسیوں اور مہمانوں کی آواجاہی سے ہفتوں چہل پہل اور رونق دکھائی دیتی تھی ۔دولہا دلہن کی عزت افزائی گھر گھر میں ان کی دعوت کردی جاتی تھی لوگ کافی ملنسار دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ۔شادی سے پہلے کی تقریبوں میں برابر کا حصہ لیتے تھے ۔مثلاً وازہ وان کے لئے بالن لانا، چاول صاف کرنے آس پڑوس کی عورتیں بغیر کسی معاوضے کے آنا، گھر کی صاف صفائی میں ہاتھ بٹانا۔ صاحب خانہ کی حوصلہ افزائی اس کی ہمت بڑھانا اور پیش پیش رہنا سب کا معمول تھا۔پھر مہندی رات شب برات جیسے گزرتی تھی ،عورتیں روایتی گیت (ونہ وُ ن) گاکے دولہا دلہن کو تعریف میں آسمان تک چڑھاتے تھے ،کسی مشہور نامور گائک کے گیتوں سے محفل کو چار چاند لگتے تھے ۔پھر رات کے پچھلے پہر دولہا دلہن کے لئے کسی بڑے نامور صوفی شاعر کا دعائیہ کلام گاکر ڈھیر ساری دعائیں دیتے تھے ۔اگلے روز دعوت یا ولیمہ میں سات خصوصی وازہ وان پکوانوں سے لیکر گیارہ میٹھے میٹھے وازہ وان پکوانوں سے مہمانوں کا استقبال کرتے تھے۔آخر میں دولہا دلہن کو دعائیں اور صاحب خانہ کو تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
۲۔ ریا کاری:موجودہ دور میں سب سے پہلے لاکھوں روپیہ لٹاکے گھر کو بقعہ نور بنایا جاتا ہے پھر دھوم دھڑکا خوب ہوتا ہے ۔نمودو نمائش کے لئے مال و دولت بے دریغ لٹایا جارہا ہے، محفلیں سجتی ہیں ننگا ناچ بے تکے گانے والے فحش گاکر اپنے اوٹ پٹانگ ناچ گانوں سے سامعین کے دل جیت رہے ہیں ۔لوگ بھی اتنے احمق کہ ایسے بے تکے گائک اور ان کے ناچ گانوں پر لاکھوں روپیہ لٹاتے ہیں، ناچ نغموں میں جنس کی کوئی تمیز نہیں ہوتی ایسے فحش ناچ نغمے بے حیائی کی راہیں ہموار کر رہے ہیں اور لاوئڈ سپیکروں سے پڑوسیوں اور بزرگوں کی نیند حرام کر دی جاتی ہے ۔وازہ وان کا تذکرہ کریں تو پکوانوں کی تعداد 90 کو چھو رہی ہے عنقریب 100 پار کرنے کی توقع ہے جس کے لئے بھیڑوں کی تعداد 70 تک پہونچ گئی ہے، تقریباً 10 سے 12 کوئنٹل گوشت درکار ہوتا ہے ۔قدرتی طور پکوان بچ بھی جاتا ہے پھر سڑ جانے کے خوف سے گندی نالیوں میں پھینکا جارہا ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہاں کے ہر گھر میں اوسطاًدو سے تین گاڑیاں ہیں، گھروں کے منزل پر منزل تعمیر کرنے کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت بھی لیتے ہیں۔اسطرح فضول لٹائی جانے والی دولت کی نمائش سے معاشرے کے پست ماندہ طبقہ کے لوگ بغض عداوت اور نفرت کی آگ میں جھلس رہے ہیں اور جن کی سرد آہیں اب آسمان تک پہونچ گئی ہیں کیونکہ ان کی بیٹیاں شادی کی عمر پار کر چکی ہیں۔ اب سورج بھی زمین پر اپنی بے دود آگ برسا کر زمین پر بسنے والوں کو آگاہ کر رہا ہے کہ ہوش میں آجائولیکن زمین پر بسنے والے بے ضمیر لوگ اس سب سے بے خبر اپنی دولت لٹانے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے میں محو خواب ہیں ۔
۳۔ تکملہ:حکام اگر چاہئے تو ایسی بے تحاشا دولت لٹانے پر قدغن لگا سکتی ہے۔ ان کے ہتھیار چھوڑنے پر معاشرے کے نوجوان پود کو یہ ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھانی چاہئے اور ایسے امیر لوگوں کا سماجی اور معاشرتی بائیکاٹ کرنا چاہئے جو اپنی دولت اس قدر بے دریغ لٹائے جارہے ہیں، تبھی ایک پاک اور صاف وستھرا معاشرہ تشکیل پاسکے۔
(ترجمہ ۔ماجد مجید کشمیر یونیورسٹی)