انوپ دت اور سہیل اختر گہرے دوست بھی ہیں اور ہم پیشہ بھی۔دونوں سماجی فلاح وبہبود محکمے میں تیسرے درجے کے ملازم ہیں۔گھر سے یہ دونوں ہر روز ایک لوکل بس میں سوار ہوکر تقریباً چالیس کلو میٹر کی دوری پر ڈیوٹی دینے جاتے ہیں۔بس میں مرد ،عورتیں ،بوڑھے،جوان اور بچّے ہر طرح کے لوگ سوار ہوتے ہیں۔انوپ دت میں ایک عجیب عادت یہ ہے کہ وہ صنف نازک کے ساتھ سیٹ پہ نہیں بیٹھتے ۔انھیں چاہے گھنٹوں کھڑے کھڑے کیو ں نہ رہنا پڑے لیکن کسی عورت کے ساتھ سیٹ پہ بیٹھنا وہ معیوب سمجھتے ہیں ۔بس میں کسی عورت کے ساتھ والی سیٹ خالی پڑی رہے ،انوپ دت اس پہ ہرگز نہیں بیٹھیں گے۔یہاں تک کہ اگر وہ بیٹھے ہوں اور کوئی عورت آکر ان کے ساتھ خالی سیٹ پہ بیٹھ جائے تو وہ فوراً اپنی سیٹ چھوڑ کرکھڑے ہوجائیں گے۔ایک روز ان کے گہرے دوست سہیل اختر نے ان سے پوچھا
’’یار انوپ۔۔میں تجھے کئی دن سے دیکھ رہا ہوں کہ تو کسی عورت کے ساتھ سیٹ پہ نہیں بیھٹتا ہے اور پھر حیرت کا مقام یہ کہ اگر تو سیٹ پہ بیٹھا ہو اور کوئی عورت آکے تیرے ساتھ خالی سیٹ پہ بیٹھ جائے تو تُو فوراً اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے اور بس میں کھڑے کھڑے دھکے کھاتا رہتا ہے۔مجھے بتا تجھے کیا پرابلم ہے؟ایسا کیوں کرتا ہے؟‘‘
انوپ دت نے جواب دیا
’’یار سہیل۔۔میں عورت ذات سے بہت ڈرتا ہوں ۔مجھے رات کو دو کیلو میٹر گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اکیلے چلنے سے ڈر نہیں لگتا ،لیکن عورت سے ڈر لگتا ہے‘‘
سہیل اختر نے حیرت سے پوچھا
’’اس کی کوئی خاص وجہ ؟‘‘
انوپ دت نے کہا
’’یار، میرے عورت ذات سے ڈرنے یا مرعوب ہونے کی وجہ کا تعلق میری آنکھوں کے سامنے پیش آمدہ ایک واقعہ سے ہے۔وہ یہ کہ ایک بار میں کسی ضروری کام کے سلسلے میں بس میںسوار شہر جارہا تھا۔بس شہر میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ اچانک ایک عورت اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور دانت کچکچاتی ہوئی پاس میں بیٹھے دیدہ زیب پینٹ کوٹ اور ٹائی پہنے ادھیڑ عمر کے ایک مرد پر جھپٹ پڑی۔عورت نے ایک ہاتھ سے مرد کی ٹائی کو گرفت میں لیااور دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنے دائیں پاوں کاسات نمبر پاپوش ہاتھ میں لیا اور تابڑ توڑ اس جدیدتہذیب کے دلدادہ مرد کے سر پہ مارنا شروع کردیا ۔ڈرایئور نے بیک وقت ایک جھٹکے سے بس روک لی ۔تمام سواریاں اپنی اپنی نشستوں پہ کھڑی ہوگئیں ۔عورت کی پاکیزہ نسوانیت اپنی پوری غیرت کے ساتھ موجزن دکھائی دے رہی تھی۔وہ عورت غصّے سے اس مرد سے پوچھنے لگی
’’کیا تیری ماں ،بہن،بیٹی نہیں ہے؟‘‘
وہ مرد ڈر وخوف اور بوکھلاہٹ کے باعث تھتھلاتے ہوئے کہنے لگا’’میں ایسا ۔۔آدمی ۔۔نہیں ہوں‘‘
پھر کچھ سنجیدہ قسم کے لوگ آگے بڑھے اور انھوں نے اس عورت کی گرفت سے اُس کو آزاد کرایا ۔پھر اس باغیرت عورت سے ایک آدمی پوچھنے لگا
’’یہ کیا ماجرا ہے ،تم اسے کیوں پیٹ رہی ہو؟‘‘
عورت نے ہانپتے ہوئے جواب دیا
’’اس مرد کو اپنی ماں ،بہن ،بیٹی بھول گئی تھی ،اس لیے اس کے ہاتھ بے قابو ہورہے تھے‘‘
سواریوں میں کچھ لوگوں نے زمین کی طرف نظریں جھکا دیں اور کچھ نے مارے شرم کے چہرے پھیرلئے۔ کچھ نے اپنی ہنسی پہ بمشکل قابو پایااور کچھ کے ہاتھ اس مردپہ اٹھنے کے لیے ترسنے لگے۔بالآخر اس مرد نے اس عورت سے مافی مانگی اور معاملہ رفع دفع کردیا گیا۔لیکن میرے دوست اس واقعے سے میری نفسیاتی دنیا میں عورت ذات کا ڈر اس قدر رچ بس گیا کہ میں لاکھ کوششوں کے باوجود اس ڈر سے نجات نہیں پارہا ہوں ۔
سہیل اختر نے جب انوپ دت کی زبانی پورا واقعہ سنا تو اس نے کہا
’’اچھا یہ بات ہے میرے دوست، دراصل جب کسی مرد کا دل سیاہ اور آنکھیں میلی ہوجاتی ہیں تو پھر اس کے ذہن ودل سے کسی کی ماں ،بہن ،بیٹی کو اپنی ماں ،بہن،بیٹی سمجھنے کا جذبہ رخصت ہوجاتا ہے۔چنانچہ ایسی صورت میں ہماری ماوں،بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی عزت وعصمت کے تحفظ کے لیے ان مردوں کے سر پہ وہی سات نمبر کا پاپوش مارنا پڑتا ہے جن کے دل سیاہ اور آنکھیں میلی ہوجاتی ہیں۔اس لیے میرے دوست تمہیں میری یہ نصیحت ہے کہ تم جب بھی کسی گاڑی میں سفر کرو تو ہر کسی کی ماں بہن بیٹی کو اپنی ماں بہن بیٹی سمجھو۔اب بتاو کیا تم اس پاک جذبے کے ساتھ گاڑی میں صنف نازک کے ساتھ سفر کرو گے؟‘‘
انوپ دت کے ماتھے پہ ہلکے ہلکے پسینے کے قطرے ابھر آئے۔انھوں نے زبان سے کچھ نہیں کہا،البتہ نفی میں سر ہلا دیا۔
���
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛9419336120