ترال//سابق وزیر و ممبر پارلیمنٹ اور نیشنل کانفرنس کے اعلیٰ پایہ کے لیڈرترال کے ایڈوکیٹ علی محمد نائیک جمعہ کی شام مختصر علالت کے بعدانتقال کر گئے ہیں۔انکی عمر92برس کی تھی۔مرحوم چار بار ممبر اسمبلی اور ایک بار ممبر پارلیمنٹ رہنے کے علاوہ تین بار ریاستی وزیررہے۔ترال پائین کے رہنے والے علی محمد نائیک محاذ رائے شماری اور نیشنل کانفرنس کے صف اول کے لیڈروں میں تھے۔مرحوم نے 5مئی 1929کو ترال میں جنم لیا جس کے بعد قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سیاست میںقدم رکھا۔وہ شیخ محمد عبداللہ کیساتھ محاذ رائے شماری کی تحریک میں پیش پیش رہے اور محاذ کے جنرل سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دئے۔1967میں جب ریاستی انتخابات کا مرحلہ آیا تو نائیک نے محاذ رائے شماری سے استعفیٰ دیا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے ترال سے منتخب ہوئے۔اس انتخاب میں انہوں نے کانگریس کے عبدالغنی ترالی کو شکست دی۔1972میں وہ دوبارہ چنائو جیت گئے اور میر قاسم کی حکومت میں وہ ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔تاہم اندرا عبداللہ اکارڈ کے بعد جب1977میں انتخابات ہوئے تو وہ این سی کے محمد سبحان بٹ سے چنائو ہار گئے۔1982میں نائیک نے دوبارہ چنائو میں جیت حاصل کی اور وہ1984میں غلام محمد شاہ کی حکومت میں وزیر تعلیم بن گئے۔اسکے بعد انہیں1987میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1990کے نامساعد حالات کے بعد انہوں نے نیشنل کانفرنس میں شمولیت اختیار کی اور انہوں نے1996میں پارلیمنٹ چنائو میں کامیابی حاصل کی۔علی محمد نائیک جنگجوئوں کے ایک حملے میںبھی اس وقت بال بال بچ گئے تھے جب ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد وہ واپس سرینگر جارہے تھے۔17اپریل2006کو ان پر بس اسٹینڈ ترال میں جنگجوئوں نے گھات لگا کر حملہ کیا جس کے دوران اسکے چہرے پر گولیاں لگیں اور وہ شدید طور زخمی ہوا۔اسکے بعد انکی سرینگر اور دلی میں کئی جراحیاں کی گئیں،لیکن اسے بولنے میں مشکلات پیش آتی رہیں۔اس حملے میں انکی حفاظت پر مامور ترال پولیس سے وابستہ دو اہلکار نذیر احمد آہنگر گاندربل اور عبدالاحد وانی لارکی پورہ اننت ناگ بھی ہلاک ہوئے۔اس واقعہ میں ایک پولیس زخمی بھی ہوا تھا۔مرحوم کو ریاست کے اعلی پایہ قانون دانوں میں شمار کیا جا تا تھا۔ قریبی رشتہ داروں کے مطابق مرحوم چھاتی کے مرض میں کچھ وقت سے مبتلا تھے اور انہیں جمعرات کی شام کو ہی جموں سے ترال لایا گیا تھا۔جمعہ کی شام انہوں نے اچانک زیادہ درد محسوس کیا جس کے بعد افراد خانہ نے انہیں سرینگر لے جانے کی کوشش کی تاہم وہ راستے میں دم توڑ بیٹھے۔ مرحوم کے دو بیٹے اورتین لڑکیاں ہیں جو سبھی شادی شدہ ہیں۔