کانگریس کتنی ہی بُری پارٹی ہو لیکن اسے ذمہ داری کا احساس ہے،وہیں بی جے پی کتنی ہی اچھی پارٹی(بھکتوں کی نظر میں)کیوں نہ ہو اس کے اندر ذمہ داری کا احساس قطعی نہیں ہے ۔ یہ احساس ِ ذمہ داری کیا ہے ۔۔۔ملک کی سا لمیت،بھائی چارگی اور معیشت کی حفاظت۔یاد کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ کوئی بحران آنے پرکانگریس اپنے ذمہ داران کا تبادلہ تو کر ہی دیتی ہے کبھی کبھار انہیں ان کے عہدوں سے برطرف بھی کر دیتی ہے تاکہ بحران پر قابو پایا جا سکے ، اس وقت اس کے سامنے اپنی پارٹی نہیں بلکہ ملک ہوتا ہے۔ممبئی میں بابری مسجد کی شہادت کے بعدجب دوسری بار فسادات پھوٹ پڑے تو سدھاکر نائک کی جگہ دہلی سے شرد پوار کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے سے زیادہ فسادات روکنے کیلئے بھیجا۔اگرچہ نرسمہا راؤ کی غلطی سے مسجد شہید ہوئی تھی لیکن پھر بھی انہیں احساس تھا کہ اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے اور انہوںنے کارروائی کرتے ہوئے سدھاکر نائک کو نکال دیا ۔اس کے علاوہ بھی ماضی میںکئی ایک ایسی مثالیں ہیں جو کانگریس سے منسوب ہیں۔یہ بات بی جے پی میں نہیں ہے ۔بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کھٹّر کی حکومت میں ہریانہ کئی بار جل چکا ہے لیکن کیا مجال کہ بھاجپا کی قیادت یا مودی کی کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔اسے آپ آرایس ایس کی سرپرستی سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔جاٹوں کے تشدد کا معاملہ ہو کہ باباگرمیت کا یا لنچنگ کا،ہر بار بی جے پی اس تعلق سے خاموش رہی اور مودی جی نے تو جیسے چپ کاروزہ رکھا ۔ منوہر لال کھٹر بھاجپا ایم ایل ایزکا انتخاب نہیں ہیں۔ان کی قابلیت یہ ہے کہ وہ ایک کٹر سنگھی ہیں۔انہیں ایڈمنسٹریشن کا کوئی تجربہ نہیں لیکن بی جے پی بضد ہے کہ انہیں ہی وزارت عالیہ پر براجمان رکھاجائے خواہ ریاست تباہ ہی کیوںنہ ہو جائے۔اسے اپنی آمریت پسند ہے ۔ایم جے اکبر سے استعفیٰ کیوں لیا گیا، وہ الگ کہانی ہے ۔ ا س حوالے سے یوگی آدتیہ ناتھ کا معاملہ بھی غور طلب ہے۔ جب سے وہ یوپی کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے ہیں وہاں نظم و نسق کی حالت بہت ہی خراب ہے۔ایک ڈیڑھ برس میں ہزار سے زیادہ انکاؤنٹر ہو چکے ہیں۔خواتین کے ساتھ زیادتی اور لنچنگ کے کئی کیس ہوئے ہیں لیکن بی جے پی کے ساتھ یہ پریشانی ہے کہ یوگی کو ہٹائے کیوں اور ان کی جگہ پر کسی اور کو لائے کیوں؟ بالفرض ہٹادیا تو ہندتوا گیم پلان کا پھر کیا ہوگا؟ یوگی آرایس ایس اور مودی ہی کا انتخاب ہیں ۔انہیں بھی پارٹی ایم ایل ایز نے منتخب نہیں کیا ہے۔اسمبلی چناؤ سے پہلے وہ گورکھپور کے پانچ مرتبہ سے ایم پی تھے۔ایک مٹھ کے پجاری تھے اور شاید اب بھی ہیں۔ انہیںایڈمنسٹریشن کا کوئی تجربہ نہیں ، اسی لئے ہمیشہ بہکی بہکی باتیں کرتے رہتے ہیں۔۵؍دفعہ ایم پی رہنے کے باوجود بھی انہوں نے گورکھپور میں کسی طرح کی تعمیر ترقی کا کام نہیں کیا بلکہ دھرم کے نام پر الیکشن جیتتے آئے ہیں۔وزیر اعلیٰ بنا دیئے جانے کے بعد وہ اسمبلی کا انتخاب لڑنے کی وہ ہمت نہیں کر سکے بلکہ ایم ایل سی بنائے گئے کیوں کہ ایم ایل سی منتخب ہو جانا پکا تھا لیکن یہ بات ایم ایل اے کے ضمنی انتخاب کے لئے نہیں کہی جا سکتی تھی ، جب کہ بی جے پی اور آرایس ایس کسی بھی حال میں یو گی کو کھونا نہیں چاہتی تھیں۔ ان کا یہ منصوبہ تھا کہ یوگی کوبھگوامیں ملبوس رکھ کردنیا کو یہ پیغام دیاجائے کہ ہندوستان ہندو راشٹر بننے کی طرف گامزن ہے۔مودی جی یہ سنیاسی والا لباس نہیں پہنتے،اگرچہ ان کادعویٰ ہیے کہ ہمالیہ کی گپھاؤں میں انہوں نے تپسیا کی ہے۔پتہ نہیں وہاں کن کپڑوں میں رہتے تھے، اُن کی تپسیا بھی اب کہانی ہی لگتی ہے۔بہر کیف یوگی کو پروجیکٹ کر کے وہ بہت کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں،مثلاً مودی جی نے مان کر چلتے ہیں کہ ۲۰۲۴ء تک وہ بلاشرکت غیرے وزیر اعظم رہیں گے۔اس کے بعد یا آخری دنوں میں یہ تاج یوگی جی کے سر سجا دیا جائے گا کیونکہ یوگی کی عمر بھی ان کی موافقت میں ہوگی ، جب کہ اپنے بنائے ہوئے اصول کے مطابق مودی ۷۵؍ سال کے قریب ہونے کی وجہ سے منصب سے دستبردار ہو جائیں گے۔اسی درمیان ایودھیا میں عالی شان رام مند کی تعمیر پوری بھی ہو جائے گی اور وہ ہندتوا کا مرکز ہو جائے گا، پھربطور وزیر اعظم یوگی جی جب بیرون ملک جائیں گے تو دور ہی سے پہچان لئے جائیں گے کہ ایک ہندو دیش کا وزیر اعظم آیا ہے ۔ اکیسویں صدی میں یہ نقالی چلنے والی نہیں ، شاید سنگھ کو معلوم نہیں کہ سعودی عرب بھی اس صدی میں داخل ہونے کیلئے پر تولتے ہوئے یکے بعد دیگرے اُن تمام چیزوں اور روایتوں کو فروغ دے رہا ہے جو مغرب کا خاصہ ہیں۔اس بدلاؤ اور جدت کاری سے اسلام کو خطرہ ہے نہ بنیادی عقائد کو چھیڑے بغیر ترقی اور نیا پن اختیار کر نا ہے اسلام کے منافی ہے۔اس کے الٹ میں ہمارے دیس کو سنگھ ہم دو ہزار برس پیچھے دھکیلنے جا رہاہے اور اُن چیزوں کو فروغ دینا چاہتا ہے جو اُن وقتوں میں رائج تھیں۔
اسی درمیان اتر پردیش کے ۸۳؍ نوکر شاہوں نے ایک کھلا خط لکھ کریوگی اور مودی حکومت کو کٹہرے میںکھڑا کیا ہے ۔ مکتوب کا نفس ِمضمون یہ ہے کہ کیوں نہ یوگی سے استعفیٰ لے لیا جانا چاہئے اور مودی کی خاموشی پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے ۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو مودی اپنی تقریروں میں آئین کی قسم کھاتے ہوئے نہیں تھکتے ، وہی آئین کی حفاظت کے تعلق سے کچھ نہیں کرتے۔یوگی کے تعلق سے بھی یہ کہا گیاہے کہ انہوں نے بھی آئین پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا ہے لیکن وہ سارا کام غیر آئینی انداز میںکر رہے ہیں ۔جہاں ایک پولیس آفیسر کی موت پر کارروائی کرنی چاہئے تھی ،وہاں وہ گئو رکشکوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور آج تک اُس کلیدی ملزم کو یوگی کی پولیس گرفتار نہیں کر سکی ہے کیونکہ ملزم بجرنگ دل کا ممبر ہے اور سوشل میڈیا پر تھانہ آفیسر سبودھ کمار سنگھ کے قتل کو جائز ٹھہرانے والا اپناویڈیو پوسٹ کرتا آرہا ہے۔ واضح رہے کہ بلند شہر تھانہ آفیسر سبودھ کمار کو گئو رکشکوں نے ۳؍ دسمبر کو گولی مار دی تھی جب وہ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اورتشدد کررہے بھیڑ کو قابو میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔بعد میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ دادری میں محمد اخلاق کا گائے کا گوشت رکھنے کے افواہ میں گئو رکشکوں کے ذریعے جو قتل ہوا تھا، اس کی تفتیش یہی سبودھ کمار کر رہے تھے۔کیا اس طرز عمل سے پولیس کی خود اعتماد ی مجروح نہیں ہوتی کہ صرف کانگریس کے سرجیکل اسٹرائیک کے تعلق ہی سے کچھ بیان دینے سے فوجیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے؟بالی ووڈ کے مشہور اداکار نصیرالدین شاہ نے یہ کہہ کر ملک کی ناگفتہ بہ صورت حال کو اظہار کی زبان دی کہ اگر کل کو تشددپسند بھیڑ جمع ہوکر ان کے بچوں سے پوچھے وہ ہندو ہیں یامسلم تو کیا جواب دیں گے۔ اس پر زعفرانیوں نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا کیونکہ نصیرالدین ایک مسلمان ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات اتنے خراب کبھی نہیں تھے جو اب ہیں۔پولیس آفیسر کے بجائے گائے کی اہمیت ہے۔وہ سوال کرتے ہیں کہ ہم کس دور میں رہ رہے ہیں؟ان کا یہ سوال کہ اگر ہمارے کسی بچے کو ایک بھیڑ گھیر لیتی ہے اور اس سے اس کا مذہب پوچھے تو وہ کیا جواب دے گا ،آیا وہ ایک ہندو ہے یا مسلمان؟ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ایسی تعلیم ہی نہیں دیتے۔ایک دنیا کو معلوم ہے کہ نصیرالدین شاہ نے دو شادیاں کی ہیں اور دونوں ہی ہندو لڑکیاں ہیں ۔۲۰۱۵ء میں عامر خان نے بھی کہاتھا کہ ان کی ہندو بیوی اپنے بچوں کیلئے متفکر ہیں کیونکہ انہیں ہندوستان میں اب ڈر لگتا ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ عامر خان نے بھی دو شادیاں کی ہیں اور دونوں ہی ہندو ہیں۔ ان دو اداکاروں کے سیکولر ہونے سے کسی کو انکا ر نہیں ہو سکتا۔اگر وہ سیکولر نہیں ہوتے تو ہندو لڑکیوں سے شادیاں ہی کیوں کرتے؟ان کے بیانات کی تصدیق ان کی بیویوں سے بھی کی جاسکتی ہے کہ کیا انہیں بھی ملک کی موجودہ فضا سے ڈر لگتا ہے؟ کیا وہ بھی اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں؟مودی کا قصیدہ گو میڈیا اصل مسئلے کوچھوڑ کراُلٹا نصیرالدین شاہ ہی کی صاف گوئی پر حملہ زن ہوا ہے ، عامر خان پر یہی وار کیا گیا تھا ،ان کو دھمکی دی گئی تھی کہ پاکستان چلے جائیں۔ مودی سرکار کے دور میں جوکوئی بھی ایسی حقیقت بیان کرے جو حکومت کے موافق نہ ہو، خاص کر بولنے والا خیر سے مسلمان ہو تو متعصب میڈیا اس کوکو غدارِ وطن کہنے میں دیر نہیں لگاتا اور اسے پاکستان جانے کیلئے کہتا پھر تا ہے۔نصیرالدین شاہ نے اُس وقت بھی جواب میں ایک ٹویٹ کیا تھا جب وراٹ کوہلی نے ایک بے تکی بات کی تھی کہ جو ہندوستانی کرکٹ کھلاڑیوں کو پسند نہیں کرتے انہیں ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے۔وراٹ کوہلی جیسے کھوکھلے دماغ والے کوہی ہندوستان سے باہر پھینک دینا چاہئے جو خود اپنی شادی کی تقریبات ہندوستان سے باہر جا کر کرتا ہے اور یہاںمودی اُسے آشیرواد دیتے ہیں۔ بے شک مودی جی کے سیاست کا یہ طور اور اندازاب زیادہ دیرچلنے والا نہیں ۔۵ ؍اہم ریاستوں کے انتخابات کے نتائج نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ عوام کو کیا چاہئے۔اِن ریاستوں میں ۹۷؍فیصد ہندو ہی چن کر آئے ہیںتو بی جے پی کی ہندوتوراگ کام نہیں کرے گی اور یہی ہندو جن پہ مودی اور بی جے پی کو تکیہ تھا،اب ہوا دینے لگے ہیں کیونکہ ان میں اکثریت سیکولرازم کی حامی ہے۔ اس لئے اب مودی جی کا جادو اب کم ہی چلے گا۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں ۔۔۔ رابطہ9833999883)