سرینگر // حالیہ تحلیل شدہ اسمبلی کے اراکین سمیت سابق ممبران اسمبلی کو ایم ایل اے ہوسٹل سے نکالنے کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر انتظامیہ کی ہدایت پر قانون سازاسمبلی کے سابق اراکین کو جمعرات کے روز ایم ایل اے ہوسٹل سے باہر نکالنے کو کہا گیا ہے ۔ ریاستی انتظامیہ کے ایک اعلی افسر نے کشمیر عظمیٰ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اراکین کو ہوسٹل سے نکالنے کیلئے تیاریاں ہو رہی ہیں اور وہاں ہوسٹل کے کمرے نئے منتخب ہونے والے کارپوریٹرس کو دیئے جائیں گے۔سیکریٹری اسمبلی رتن لال شرما نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ یہ سچ ہے کہ سابق اراکین قانون سازیہ کو ہوسٹل سے نکالنے کی بات ہو رہی ہے تاکہ وہاں پر نئے منتخب شدہ ممبران کو بٹھایا جاسکے ۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اسمبلی کے اسپیکر اور چیف سیکریٹری کے درمیان بات بھی ہوئی ہے ۔قانون ساز اسمبلی کے سابق ممبران نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ اگر اسمبلی کے اسپیکر اپنے اختیار کو نہیں جانتے تو یہ بدقسمتی کی بات ہے ۔قانون ساز اسمبلی کے سابق سپیکر محمد اکبر لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہوسٹل خالی کرانے یا نہ کرنے کا اختیار اسپیکر کو ہوتا ہے نہ کے گورنر اور چیف سیکریٹری کو ۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ خود اسپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ نے کیا ہے تو پھر انہوں نے اپنے اختیار کو خودہی تباہ وبرباد کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر ایسا فیصلہ اسپیکر کو ہی لینا ہوتا ہے اور یہ اُسی کے حد اختیار میں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ سر اسر غلط ہے اور ہم اُس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔نیشنل کانفرنس لیڈر اور سابق سپیکر مبارک گل نے کہا کہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ سب لیڈران کو سیکورٹی فراہم کرے ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہوسٹل میں کوئی جگہ خالی ہے تو اُن کو بٹھایا جائے تو اُس میں کوئی بھی قباحت نہیں مگر اگر اُن کو نکال کر کسی کوبٹھایا جائے گا تو یہ سر اسر ناانصافی ہو گی۔ سینئر لیڈر وایم ایل اے خانصاحب حکیم محمد یاسین نے کہا کہ ہوسٹل میں بیٹھے ہوئے لوگ کسی عیش کیلئے نہیں بلکہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہاں بیٹھے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سرکار کو کارپوریٹرس کیلئے الگ جگہ کا بندوبست کرنا چاہئے کیونکہ ان فیصلوں سے اسمبلی اسپیکر کی ساخت خراب ہو جاتی ہے ۔پی ڈی پی ترجمان اعلی رفیع احمد میر نے بھی اس فیصلے پر اعتراض جتلاکر کہا ہے کہ کشمیر میں سیکورٹی کے وجوہات ہیں اور پی ڈی پی اس معاملے کو سرکار کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھائے گی۔