ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کے سرحدی علاقہ سائوجیاںمیںبدھ کی صبح پیش آئے المناک سڑک حادثہ ،جس میں11افراد ہلاک اور27دیگر شدید زخمی ہوگئے ہیں، نے ایک بار پھر مرکز کے زیر انتظام اس علاقہ میںسڑک حادثات ک اندوہناکی کو اجاگر کردیا ہے۔تحصیل منڈی میں رواں اور گزشتہ برس کے دوران 47چھوٹے بڑے سڑک حادثات ہوئے ہیں جن میں 22افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں جبکہ ان حادثات کے دوران درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ صرف گزشتہ چار ماہ میں سائوجیاں میں دو بڑے سڑک حادثات پیش آئے جن میں 15لوگ مارے گئے اور 35افراد شدید زخمی ہو گئے ۔اسی علاقہ میں جون 2022میں ایک ٹا ٹا سومو حادثے کا شکار ہوئی تھی جس میں اسی علاقہ سے تعلق رکھنے والے4 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور اب اسی مقام پر ایک اور گاڑی کو سڑک حادثہ پیش آیا جس میں11لو گ لقمہ اجل بن گئے جبکہ دیگر27زخمی افراد صوبہ جموں کے الگ الگ ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
عملی طور پرجموںوکشمیر کی سڑکیں موت کا کنواں بنتی چلی جارہی ہے ۔ اب سڑک حادثات اس تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں کہ حساب رکھ پانا مشکل ہوچکا ہے ۔ محکمہ ٹریفک کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران جموںوکشمیرکے مختلف علاقوں میں سڑک حادثات کے دوران 16634سڑک حادثات میں2708افراداجل بن گئے ہیں جبکہ21271افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں شاہرائوں کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں شاہراہیں دردناک اموات کی علامت بن کررہ گئی ہیں۔ہمارے یہاں سڑک حادثات صرف سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا بھی نہیں ہوگا کہ یہ واحدخطہ ہے جہاں اوسطاً زیادہ لوگ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں ۔یہاں رونما ہونے والے حادثات کی شدت بذات خود ٹریفک نظام میں بدترین خامیوں کی موجود گی کا برملا ثبوت ہے۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں حادثات کے اسباب سڑکوں کی تنگ دامانی،ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک دبائو ،قوانین کی خلاف ورزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ،جعلی ڈرائیونگ لائسنز یا ڈرائیونگ لائسنز کی اجرائی کا ناقص نظام وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔محکمہ ٹریفک کا غیر متحرک ہونا ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔
اگر پونچھ حادثہ کی ہی بات کی جائے تو جس مسافر گاڑی کو یہ حادثہ پیش آیا ہے ،اس پر گزشتہ پانچ ماہ میں پانچ بار چالان کیاگیا ہے اور تازہ ترین چالان اسی ماہ کی3تاریخ کو کیاگیاتھا۔ظاہر ہے کہ اگر اتنے چالان ہوئے ہیں تو وجوہات بھی رہی ہونگیں اور محکمہ نے صرف خانہ پری کیلئے چالان نہیں کئے ہونگے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چالان پہ چالان کیاگیا ہے تو ایسی گاڑی کو سڑکوں پرچلنے کی اجازت ہی کیوں دی گئی؟۔کچھ تو ہے جس کی پردہ دار ی ہورہی ہے وگرنہ چالان کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
ایسا نہیں کہ محکمہ ٹریفک میں قابل اور کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ٹریفک محکمہ شدید افرادی قلت اور جدید سہولیات کی محرومی سے دوچار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شہروں اور قصبہ جات میں ہی ٹریفک محکمے کی موجود گی محسوس ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہورہا ہے۔مثلاً ٹریفک قوانین اور ضوابط سے متعلق عوام کو تسلسل کے ساتھ جانکاری فراہم کرنا محکمہ ٹریفک کا ایک مسلسل کام ہونا چاہیے تھا،لیکن اس ضمن میں بہت معمولی توجہ دی جاتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ٹریفک نظام کو سر نو ترتیب دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے ۔نظام ٹریفک کو سنوارنا ایک مسلسل عمل ہے کیونکہ مسائل تو بہرحال ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٹریفک دبائو تو بڑھتا ہی جائے گا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ بلکہ ہماری آس پاس کی ہی ریاستوں میں جتنا ٹریفک دبائو ہے ہمارے یہاں اسکے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن ان ریاستوں کے پاس نظام ہم سے بہتر ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ نئے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔
جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ یا دوسری سڑکوںاور شاہرائوں کی اہمیت اور حیثیت تو بہر حال ہمیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ضرورت ان سڑکوں پرسفرکو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔متمدن قوموں کی ترقی کا راز بھی ہی ہے کہ وہ ہمہ وقت مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہم بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کے پیش نظر شاہراہوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے مرتب کریں گے یا پھر اسی طرح حادثات میں ہونے والی اموات کو دیکھتے رہیں گے؟
سائوجیاں المناک سڑک حادثہ انسانی المیہ پر یہ مصنوعی اشک شوئی کب تک ؟
