ہلال بخاری
ہر سال 28 فروری کو نیشنل سائنس ڈے یا قومی سائنس دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن ہمیں سائنسی مزاج اور سائنسی سوچ اپنانے کی یاد دہانی کراتا ہے۔ انسان نے سائنس کے راستے پر چل کر اس دنیا کے ہر میدان میں ترقی کے جھنڈے گاڑدیئے ہیں۔
سائنس جدید دنیا کی پیداوار نہیں ہے، اس دنیا میں انسان کی آمد کے ساتھ ہی سائنس کی بھی آمد ہوئی ہے۔آہستہ آہستہ انسان نے سائنسی مزاج اپنا کر اس علم کو ترقی دی اور وہ خود لگاتار جدید سے جدید تر ہوتا گیا۔آج ہم زیادہ تر سائنس اور سائنسی مزاج کی بنیاد پر ہی اپنے ادوار کو قدیم، وسطی اور جدید ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔سائنسی علوم نے انسان کی ترقی اور ترویج میں بہت مدد کی ہے۔ سائنس کی دین سے شاید ہی کوئی ذی شعور انسان انکار کرسکتا ہے۔ ہم اپنی ہر سمت اسکے واضح نقوش کا احساس کر سکتے ہیں۔ سائنس نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اور اسکی مدد سے انسان نے اپنی زندگی اس زمین پر آسان، دلکش اور بہتر بنائی ہے۔یہ سب انسان کے سائنسی مزاج اور اسکی خودمختار سائنسی سوچ کی بدولت ممکن ہوپایا ہے۔ جب انسان نے فطرت کے مختلف امور پر سوال اُٹھائے اور پھر ان سوالات کے جواب تلاش کئے تو ان جوابات کے نتیجے میں اس کی ترقی کے ادوار یکے بعد دیگرے بہتر سے بہترین ثابت ہوتے رہے۔ یعنی ہم کو جان لینا چاہیے کہ سائنس کی بنیاد اصل میں سوال سے ہوتی ہے اور ایک سائنسی ذہن ایساذہن ہوتا ہے جس میں سوالات ابھر کر جوابات کی تاک میں رہتے ہیں۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ سائنس میں ترقی ذہن اور سوچ کی وسعت اور فلگزبلٹی (flexibility) سے ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ٹالمی قدیم زمانے کا ایک بہترین سائنس دان تھا، اُس کا اندازہ تھا کہ زمین کائنات کا سنٹر یا محور ہے اور تمام ستارے اور سیارے وغیرہ اسی کے گردگھومتے ہیں۔لیکن کاپرنکس نے انکے اندازے کو غلط ثابت کیا اور اس امر کوعیاں کیا کہ اصل میں ستارے اور سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔گلیلیو نے کاپر نکس کی تھیوری پر پریکٹیکل ثبوت پیش کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے اس کو اپنے خیالات کی وجہ سے تکلیفیں بھی جھیلناپڑیں۔ کچھ لوگ گلیلیو پر اُس کے خیالات کی وجہ سے ہنستے تھے تو کچھ لوگ ان سے بہت ناراض تھے۔ لیکن آخر کار ایک دن ایسا آیا، جب ایک بڑی دوربین بنا کر گلیلیو نے اپنی تھیوری کو سچ ثابت کیا۔ ہماری دانائی اور عمدہ علم کی شروعات ایک عمدہ خیال یا ہیپوتھیسسز (Hypothesis )سے ہوتی ہے۔ کچھ خیالوں کو ایک حقیقت بننے میں سالہا سال لگتے ہیں، کچھ صدیوں تک بڑے بڑےذہنوں کو اُلجھائے رکھتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن سے کوئی خاص نتیجہ اخذ نہیں ہوتا مگر یہ سب عمدہ خیالات ہی ہماری ترقی کی بنیاد ہوتے ہیں۔
سائنس ڈے ہمیں اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے کہ ہم ایک تنقیدی اور تحقیقی ذہن سے ہر ایک تھیوری کا جائزہ لیں۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ سائنس کی کوئی تھیوری حرف ِآخر نہیں ہے۔ ہمارا یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ جس طرح آئنسٹاین نے نیوٹن کے کچھ خیالات کو غلط ثابت کیا، اسی طرح ہم میں سے ایک اعلیٰ ذہن آئنسٹائن کو بھی کہیں پر غلط ثابت کرسکتا ہے۔ سائنسی مزاج کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم بغیر کسی تعصب کے کسی بھی تھیوری پر تنقید پیش کر سکتے ہیں ۔ سائنسی مزاج کے مطابق ہماری تنقید کا واحد مقصد علم کی مزید ترقی ہوتا ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے جوان ذہنوں کو یہ باور کرائیں کہ انسان کی ترقی اور فلاح کا دارومدار ہمارے سائنسی ذہنوں پر ہے، جن میں زیادہ سے زیادہ سوالات جنم لیکر انکے جوابات کی تلاش میں مگن رہیں تاکہ انسان کی ترقی کا دور کبھی تھم نہ پائے اور ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہے۔
[email protected]