شیخ ولی محمد
دور حاضر کو سائنس و ٹیکنالوجی Science and Technology کا دور بھی کہتے ہیں ۔ سائینسی ایجادات نے ہماری زندگی کو آسان بنادیا ہے ۔ ہماری زندگی کا براہ راست تعلق سائنسی ایجادات سے ہے ۔ مختلف میدانوں میں سائنس نے ایک انقلاب برپاء کردیا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں سائنس کا عمل دخل ہے ۔ کوئی بھی شخص جو سائنس کی ابتدائی اور ضروری باتوں سے واقف نہیں اپنے موجودہ ماحول کو نہ پوری طرح سمجھ سکتا ہے نہ کامیابی کے ساتھ اس میں حصہ لے سکتا ہے ۔ سائنس کی اس اہمیت کے پیش نظر اسکولی نصاب میں اس کی جگہ پانا عیاں ہے ۔ سائنس کائنات ، دنیا اور اس کے ماحول سے متعلق بنیادی علم سے سروکار رکھتی ہے ۔ ٹیکنالوجی Technology بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے ایسے وسائل اور طریقوں پر غور کرتی ہے جس میں سائنس کو بروئے کار لایا جاتا ہے ۔ اور اس طرح انسانی زندگی میں بہتری کے امکان پیدا ہوتے ہیں ۔ لہذا سائنس اور ٹکنالوجی کے درمیان جو اٹوٹ رشتہ ہے اس کے پیش نظر ثانوی سطح Secondary Levelتک سائنس کی عام تعلیم کی جگہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو فروغ دینا چاہیے ۔
سائنس سیکھنے کے لئے بہترین سرگرمیاں :
۱۔ ابتدائی درجات (پری پرائمری/پرائمری)میں بچوں کو ماحولیات سائنسی تصورات سے متعارف کرایا جائے ۔ قریبی ماحولیات سے جڑے ٹھوس حالات کے پس منظر میں سائنس کی پڑھائی کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے ۔
۲۔ اس بات پرزور دینا چاہیے کہ بچوں کی احساسات جاگیں اور اس بات کے لیے بھی ان کی حوصلہ فزائی کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے ماحول اور اردگرد کی چیزوں کو
استعمال کریں ، سمجھیں اور ان کا مشاہدہ کریں ۔
۳۔ ابتدائی برسوں کے دوران اپنے ماحول اور گردوپیش میں موجود ٹھوس اور حقیقی چیزوں سے بچوں کو متعارف کیا جائے ۔ ( جیسے جاندار اور بے جان
Living and Non living مکان ، اسکول عمارت ، درخت ، پودے ، انسان جانور وغیرہ ۔
۴۔ بچے اساتذہ اور اپنے بڑے سے مختلف سوالات کریں کہ انسان کے علاوہ دیگر جاندار جیسے حیوانات ، جانور وغیرہ کہاں رہتے ہیں اور وہ کیا کھاتے ہیں ؟ ہم اپنا
کھانا کہاں سے حاصل کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
۵۔ بچے گردوپیش میں ذرائع آمدورفت اور کمیونکیشنMeans of Communication and Transportکا عملی طور پر مشاہدہ کریں ۔
۶۔ ابتدائی سطح پر سائنس سکھانے کیلئے بچوں کو عملی دنیا سے متعارف کیا جائے ۔ استاد اگر بچوں کو Plants، پودے
Fruits ، Vegetablesکا سبق پڑھائے تو اس کے بارے حقیقی تصور راسخ کرنے کے لیے کسی کچن گارڈن ، یا میوہ باغ میں لے جائے۔
۷۔ چھوٹے بچوں کو کچن کی چیزیں ، اسکول کی چیز یں ، یا باتھ روم کی چیزیں متعارف کرائے ہوئے انہیں ان جگہوں کی سیر کرائی جائے ۔
۸۔ بچے اپنے ماحول میں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ ، تلاش اور نشاندہی کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ اس سے ان کے دل میں تجسس پیدا ہوگا جس سے ان
کے شعور میں مزید پختگی آئے گی اور طرح طرح کے سوالات ان کے ذہن میں سراُ ٹھائیں گے ۔ اساتذہ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے پڑھائی کے عمل کا ایک اہم وسیلہ بنا سکتے ہیں ۔
۹۔ اعلیٰ پرائمری سطح پر بچوں میں اتنی سوجھ بوجھ آجاتی ہے کہ ان باتوں کو سمجھ سکیں جو معمولی سائنسی سرگرمیوں کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں ۔ اس سطح پر بھی پڑھائی کا اہم وسیلہ ماحول میں رہنا چاہیے ۔ اور طلبہ کو ان تبدیلیوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہر طرف رونما ہوتی ہیں ۔ ان کو دنیا ، قدرت کے توازن ، اور ہوا ، پانی اور توانائی کے بارے میں علم ہونا چاہیے ۔ قدرتی وسائل کے تحفظ پر خاص زور دیا جانا چاہیے ۔ صحت ، تغذیہ ، امراض ، زمین اور زرعی سرگرمیوں کے بارے
میں تفصیلات کو شامل کیا جانا چاہیے ۔
۱۰۔ کسی مسلے کو سمجھنے کیلئے بچوں میں سائنٹیفک اندا ز فکرScientific Attitude پیدا کیا جائے ۔
۱۱۔ مختلف موضوعات پر جائزے Surveys بچوں کے ذریعے کرائی جائیں اور مسلے کا حل ڈھونڈنے کیلئے معلوماتی اعداد وشمار کو تلاش کرنا اور مرتب کرلینا ،
اعداد و شمار کی بنیاد پر استدلال کرنا اور بعد میں نتائج اخذ کرنا اور نئی شہادتوں کی روشنی میں اعداد و شمار کو آزمائشی طور پر کھنا ۔
۱۲۔ بچے کے دست کارانہ ، تخلیقی اور موجدانہ Innovative and Creativeقوتوں کو بڑھاوا دینا ۔
۳ٍ۱۔ سائنٹیفک تفریحی مشاغل میں دلچسپی پیدا کرانا ۔
۱۴۔ تجربہ گاہ Laboratoryمیں انفرادی طور پر تجربی عمل کے مواقع مہیا کرانا ۔
۱۵۔ تجربہ گاہوں میں ضروری اور مناسب سامان ، سائینسی منصوبوں اور دیگر سرگرمیوں کے لیے انتظام کیا جائے ۔
۱۶۔ سائینسی نماشیوں اور میلوں میں طلبہ کی شرکت کو یقینی بنایا جائے ۔
۱۷۔ سائنس کلب Science Club سائنس کے نصاب کا ایک جزو ہونا چاہیے ۔
۱۸۔ عجائبات کے ذخیرے ، آبی حیوانوں اور پودوں کی پرورش گاہوں ( ایکویریم) کی سیر کرائی جائے ۔
۱۹۔ روز مرہ کی زندگی میں کام آنے والی سائنس کا ارتقاء اور زندگی میں اس کے استعمال کے بارے میں مضامین پڑھنا ۔
۲۰۔ سائنسی تجربات میں لچک دار رویے کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا جائے ۔
۲۱۔ اساتذہ طلبہ کی اس بات کے لیے مدد کرسکتے ہیں کہ وہ اسکول کے اندر اور باہر مناسب تجربوں اور سرگرمیوں کو فروغ دیں اور ان تجربات اور سرگرمیوں میں قریبی ماحول پیش نظر رکھیں ۔ مثلاً کھیتی ، کارخاے ، صنعت اور سماج ۔
۲۲۔ دیہی علاقوں میں سائنس کی تدریس کو کاشت کاری اور باغبانی سے مربوط کردینا چاہیے اور شہری علاقوں میں ٹکنالوجی سے ۔
۲۳۔ طلبہ کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کی جانے چاہیے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو تنقیدی اور تخلیقی بصیرت پر مبنی ہو ۔
۲۴۔ بچوں میں سائنسی سوچ پیدا کرنے کے لیے ایسے پروگراموں کا اہتمام کیا جائے جن میں بچے سائنسی ماڈل ، پروجیکٹ وغیرہ پیش کرسکیں ۔
۲۵۔ سائنس اور ٹکنالوجی مضمون کی دلچسپی پیدا کرنے کیلئے بچوں کو سائنسدانوں اور ان کی ایجادات و کارناموں سے روشناس کرانے کیلئے دلچسپ کہانیاں اورمضامین سنائیں جایں ۔
<[email protected]>