گذشتہ روزسرینگر کے ضلع مجسٹریٹ اکشے لابرو نے نامہ نگاروں کو بتا یا ہے کہ شہرِ سرینگر میںٹریفک کے دبائو کو کم کرنے اور بہتر بنانے کے لئے سائنسی طریقے پر استوار عملی منصوبے کو حتمی شکل دینے پر غور وخوض کیا گیاہے ۔بقول اُن کے سرینگر شہر میں ٹریفک دبائو کا تدارک چند چھوٹی تدابیر سے نہیں کیا جاسکتا،بلکہ اس کے لئےتمام لائن ڈیپارٹمنٹس،جن میں ٹریفک پولیس ،ریونیو ،آر اینڈ بی ،ایس ایم سی ،ایل سی ایم اے یا ایس ڈی اے قابل ذکر ہیں ،کومل کر ایک مشترکہ ایکشن پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اُن کامزید کہنا ہے کہ مختصر مدتی ،وسط المدتی اور طویل مدتی اقدامات کے ساتھ ایک عملی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بعد اگلے دس دنوں میں پلان کوحتمی شکل دے کر مجاز اتھارٹی ،صوبائی کمشنر اور حکومت کو پیش کیا جائے گا ،اس کے بعد ہی عمل درآمد شروع ہوگا تاکہ ٹریفک دبائوکو سائنسی طریقے سے کم کیا جاسکے ۔
مجسٹریٹ موصوف کے اس اظہار خیال کا اگرغور کیا جائے تو جہاں ایک طرف اسے قابل تحسین قرار دیا جاسکتا ہےلیکن دوسری طرف کئی سوالات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں ۔کیونکہ آج تک جموں و کشمیر کے گورنر حکومتی انتظامیہ کی طرف سے یہاں کی سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک دبائو کے تدارک اور ٹریفک حادثات کو کم کرنے کے لئے جتنے بھی منصوبے باندھے گئے،وہ عموماً پایۂ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں پائے ہیں اور جو اقدام اٹھائے بھی گئے،وہ بھی کار آمد ثابت نہیں ہوئے۔جبکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہاں کی مصروف سڑکوں اورشاہراہوں پر ٹریفک کا دبائو بڑھتا چلا گیا بلکہ ٹریفک حادثات کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ۔
اگرچہ انتظامیہ ان حادثات پر قابو پانے کے لئے کوشاں رہی اور جدید تکنیک کی بناء پر کئی طرح کے اقدامات بھی کئے، لیکن سڑک حادثات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جار ی رہا۔آج بھی خال خال ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہے ،جس دن کسی ٹریفک حادثہ میں انسانی جان تلف ہونے کی خبر نہیں ملتی ، آئے روز ٹریفک حادثات میں ہونے والے انسانی جانوں کے اتلاف کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی جارہی ہیں۔جن سے یہ بات پھر اُبھر کر سامنے آرہی ہے کہ جموںو کشمیر میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے کی حکومتی پالیسیاںاور کوششیں تاحال ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ٹریفک حادثات کے وجوہات میں تیزرفتاری، غیر محتاط ڈرائیونگ، سڑکوں کی خستہ حالی، خراب اور شکستہ موٹرگاڑیاں،اووَرلوڈنگ، وَن وے کی خلاف وزری، اووَرٹیکنگ،سگنل توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال، نو عمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہوجانا اور زائد مدت ٹائر وں کا استعمال وغیرہ شامل ہیں۔ ان و جوہات پر جب تک انتہائی سنجیدگی اور ٹھوس حکمتِ علی کے ساتھ توجہ نہ دی جائے، تب تک حادثات پر قابو پانے کی بات دیوانے کا خواب ہی ثابت ہوسکتا ہے۔
آج ہم جس جدید دنیا اور ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں تو یہ کوئی ناممکن کام ہی نہیں کہ سڑکوں پر ٹریفک دبائو کا تدارک کیا جاسکے اور حادثات میں کمی لائی جا سکے۔لیکن ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ان سڑک حادثات میں کمی لانے میں حکومت اور متعلقہ محکمہ سنجیدگی کے ساتھ اپناکلیدی کردارادانہیں کررہے ہیں۔بے شک یہاں کی سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک دبائو کے تدارک اور سڑک حادثات میں کمی لانے کیلئے کئی اہم نقاط پر غورو فکر کرنے کی انتہائی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے لئےٹریفک نظام کا قیام اور انتظام مکمل طور پر زمین پر نافذ العمل لانا لازمی ہے۔کب تک حکومتی انتظامیہ سائنسی طریقے سےسڑکوں پر ٹریفک دبائو کے تدارک کے منصوبے پر عملدرآمد شروع ہوگا ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،فی الحال سڑکوں پرگاڑیوں کی اسپیڈ پر قابو پانے کیلئے جدید ٹیکنیک کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی جانچ اور گاڑیوں کے اندراج کا خیال رکھنا ، اور انتظامیہ کو ڈرائیونگ ٹیسٹ اور ڈرائیونگ لائسنس اجراء کرنےکے سلسلے میں کورپشن اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ ٹریفک حادثات میں کمی لانے کیلئے قومی شاہراہوں پرحادثے کے شکار مقامات کی نشاندہی کی جائے اور اُن بلیک سپاٹس کو اِس قابل بنایا جائےکہ کسی بھی حادثے کا موجب نہ بنیں۔