سبدر شبیر
کشمیر کی وادی، جو کبھی اپنی سادگی، روحانیت اور خلوص کے لیے مشہور تھی، آج ایک نئی معاشرتی حقیقت سے دوچار ہے۔ ماضی میں یہاں کی شادیاں سادگی اور محبت کی مثال ہوا کرتی تھیں۔ لڑکی کے گھر والے چند جوڑے کپڑے، تھوڑا سا سونا اور کھانے کا سادہ انتظام کرتے اور یہی نکاح کا حسن ہوتا۔ اس دور میں دلوں کا میل ہی اصل دولت تھا، مگر اب صورت حال بدل چکی ہے۔ آج نکاح ایک روحانی بندھن سے زیادہ ایک معاشرتی مظاہرہ بن گیا ہے۔ سونے کے زیورات، بھاری مہر، مہنگی تقریبات اور نمائش کا رجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ شادی جیسے مقدس رشتے کی اصل روح پس منظر میں چلی گئی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں وادیٔ کشمیر میں سونے کے زیورات کی مانگ خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اب یہ عام بات ہے کہ لڑکی کے گھر والے یا خود لڑکیاں سونے کے پورے سیٹ، کنگن، نیکلس، بالیاں اور انگوٹھیاں بطور لازمی مطالبہ پیش کرتی ہیں۔ سونا اب محبت کی علامت نہیں رہا بلکہ عزت اور سماجی حیثیت کا پیمانہ بن چکا ہے۔ خاندانوں کا یہ خیال ہے کہ اگر بیٹی کو زیادہ زیورات دے کر رخصت کیا جائے تو لوگ تعریف کریں گے، ورنہ زبانیں طعنہ دیں گی۔ اسی سوچ نے سونا دینے اور لینے کی دوڑ کو جنم دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے نوجوان شادی جیسے فطری عمل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ نوجوان جو خود بے روزگار یا جز وقتی مزدوری کرتے ہیں، ایسے مطالبات پوری زندگی بھی پورے نہیں کر سکتے۔ ان میں سے کئی شادی کو موخر کرتے ہیں، کچھ بیرون ملک مزدوری کے لیے چلے جاتے ہیں، اور بعض تو مایوسی کا شکار ہو کر رشتے ہی نہیں کرتے۔
اسلام کے نزدیک مہر عورت کا حق ہے، مگر اس کا مقصد بوجھ ڈالنا نہیں بلکہ عزت دینا ہے۔ قرآنِ مجید میں مہر کے لیے “صدقہ” کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی خلوص کا مظہر، نہ کہ سودا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔‘‘ مگر آج مہر کو بھی نمائش اور تفاخر کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ لاکھوں روپے کے مہر طے کیے جاتے ہیں، جن کی ادائیگی اکثر صرف کاغذوں تک محدود رہتی ہے۔ مہر، جو عورت کے تحفظ اور عزت کا نشان تھا، اب مقابلہ بازی کا ہتھیار بن چکا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ’’سماجی عزت‘‘ کے نام پر ہو رہا ہے ـ مگر حقیقت میں یہی رواج عزت نہیں بلکہ ذلت اور محرومی پیدا کر رہا ہے۔
وادی کے مختلف علاقوں میں اب ایسی مثالیں عام ہو گئی ہیں کہ نوجوان صرف اس لیے غیر شادی شدہ رہ جاتے ہیں کہ ان کے پاس سونا یا بھاری مہر دینے کی سکت نہیں۔ ایک نوجوان نے کہا،’’میں پانچ سال سے رشتہ تلاش کر رہا ہوں، مگر ہر جگہ سے یہی جواب ملتا ہے: لڑکی والوں کو دس تولے سونا چاہیے۔ میں مزدور ہوں، اتنی رقم کہاں سے لاؤں؟‘‘ ایسے کئی نوجوانوں کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ یہ محض چند افراد کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری نسل کے سامنے کھڑا سماجی بحران ہے۔ شادی ایک نعمت ہے، مگر جب اسے دولت اور زیورات سے مشروط کر دیا جائے تو وہ بوجھ بن جاتی ہے۔
اس صورتحال کے مقابلے میں وادی کے کچھ بیدار ذہن افراد اور مذہبی رہنما سادگی کی تحریک کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں مساجد کمیٹیوں نے باقاعدہ معاہدے کیے ہیں جن کے مطابق جہیز، سونے کی نمائش اور غیر ضروری اخراجات ممنوع قرار دیے گئے ہیں۔ بعض امام صاحبان نے خطبوں میں اعلان کیا ہے کہ’’سونا ایمان کی ضمانت نہیں، سادگی ہی سنتِ نبوی ہے۔‘‘ اگرچہ یہ کوششیں ابھی محدود پیمانے پر ہیں، مگر یہ امید کی کرن ہیں کہ شاید آنے والی نسل اس مصنوعی چمک سے آزاد ہو سکے۔
یہ رجحان صرف مذہبی یا اخلاقی نہیں بلکہ معاشی پہلو سے بھی خطرناک ہے۔ جب شادی کو مہنگا بنا دیا جاتا ہے تو نوجوان قرض میں ڈوب جاتے ہیں، خاندان برسوں مالی دباؤ میں رہتے ہیں، اور طبقاتی فرق بڑھتا جاتا ہے۔ جو لوگ یہ بوجھ نہیں اٹھا پاتے، وہ یا تو مایوس ہو کر شادی چھوڑ دیتے ہیں یا معاشرتی دباؤ کے نیچے جھک جاتے ہیں۔ یوں سونا جو کبھی زینت تھا، آج زنجیر بن گیا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کئی خواتین خود بھی اس رواج سے نالاں ہیں۔ بہت سی لڑکیاں کہتی ہیں کہ وہ سادہ شادی چاہتی ہیں، مگر خاندان والے اجازت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہی جملہ اس پورے مسئلے کی جڑ ہے۔ یہ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ ہی ہے جس نے معاشرے کو دکھاوے کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ نتیجتاً عورت خود بھی ایک ایسی روایتی قید میں بندھی ہوئی ہے جس سے نکلنے کی کوشش بھی شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے۔
اگر کشمیر کے لوگ سنجیدگی سے چاہیں تو اس بحران سے نکلنا ناممکن نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرے کہ سونا عزت کا معیار نہیں، کردار اور ایمان ہی اصل زیور ہیں۔ اگر والدین اپنی بیٹیوں کی شادیوں کو سادہ انداز میں انجام دیں، اگر نوجوان اپنے نکاحوں کو نمود و نمائش سے پاک رکھیں اور اگر مذہبی رہنما اس پیغام کو مستقل طور پر عام کرتے رہیں، تو وادی ایک بار پھر اپنی روحانی پہچان حاصل کر سکتی ہے۔ شادی کو آسان بنایا جائے، مہر کو برکت کا ذریعہ سمجھا جائے اور سونا دکھاوے کی چیز نہیں بلکہ سادہ تحفہ مانا جائے۔کشمیر کے پھول اپنی خوشبو اس وقت پھیلاتے ہیں جب زمین صاف اور ہوا شفاف ہو۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے دلوں کو بھی اسی طرح صاف کریں۔ سونا اگر خوشی کا ذریعہ بن جائے تو ٹھیک، مگر اگر وہ محبت کو مٹانے لگے، تو اس کی چمک محض دھوکہ ہے۔ اصل روشنی وہ ہے جو کردار، محبت اور ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ وادی کو اس روشنی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والی نسلیں دکھاوے کے اندھیرے سے نکل کر حقیقی خوشی کے نور میں سانس لے سکیں۔
[email protected]