آخر کار طویل انتظار اورجان لیوا شب و روز کے بعد معصوم زینب کا قاتل درندہ قانون کے شکنجے میںآگیا وطن عزیز پر تنی سوگ خو ف غصے کی چادر ہٹ گئی۔ زینب کا غم21کروڑ اہل وطن کے دلوں میںخنجر بن کر پیوست تھا ،غم درد دکھ کر ب الفاظ کی گرفت سے با ہر ہیں۔ حادثہ ایسا کہ تصور میں لاتے ہی سانس رُکنے لگتی ہے۔ زینب کا معصوم چہرہ ،چہرے پر پھیلی حضرت مومنانہ نو ر روشنی، قوس قزح کے رنگ چاندنی جیسی چمک مسکراہٹ ،آب زم زم سے دُھلا نازک جسم اور پھر کوڑے کا ڈھیر، جہاں زینب کے جسم کو نازک گلاب کی پتیوں جیسے جسم کو پتی پتی کر کے بکھیر دیا تھا۔قاتل تو پکڑا گیا لیکن جب اُس کھنڈر نما کمرے اور جنسی درندوں کی وحشت اور ظلم کا خیال آتا ہے تو تن بدن سے آتش فشاں پھوٹنا شروع ہو تاہے ۔معصوم زینب سے بربریت وظلم کا ایک ایک لمحہ صدی کے برابر تھا۔ جانور نما جنسی درندہ عفریت اور معصوم زینب! کا ش جب ظالم درندہ معصوم زینب کو لے کر جا رہا تھا قصور شہر کا کو ئی غیرت مند جوان اُس کا پیچھا کر لیتا۔ جتنے دن معصوم پر ظلم ڈھائے گئے ،کوئی اُس کی مدد کو پہنچ پا تا۔ پنجاب کی دھرتی جو غیور جوانوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے، کو ئی جوان مظلوم بچی کا مسیحا بن جا تا، ڈھا ل بن جاتا، محافظ بن جاتا۔ حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ قیامت کی گھڑیاں جو معصوم زینب پر گزریں اُنہی گھڑیوں میں وطن عزیز میںزندگی پو ری رفتار اور رنگوں سے لبریز چل رہی تھی۔ پو لیس کا چوروں ڈکیتوں ملزموں کے پیچھے بھاگ دوڑ میں یا پھر نام نہاد سیاستدانوں کے پروٹوکول پر لگا ، کا ش! پو لیس کا نظام اتنا طاقت ور پھر تیلا اور انصاف پر مبنی ہو تا کہ کسی بھی انسان کو جرم کر نے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتا کہ جیسے ہی کو ئی مجرم جرم کی طرف بڑھے گا پو لیس حرکت میں آکر اُسے ناپاک فعل سے بزور بازوروک دے گا۔ کاش! ہمارا انصاف اور عدالتی نظام بے لاگ انصاف پر مبنی ہو تا کہ ہر مجرم کو احساس ہو تا کہ میں جرم کر کے کسی بھی طرح سے بچ نہیں پا ئوں گا ۔کا ش! عدالتی نظام چھو ٹے بڑے امیر غریب با اثر مجرم کوفوری انصاف کی دہلیز پر لا تا ،لیکن عدالتی نظام کے ہو تے ہو ئے بھی معصوم زینب پر ظلم کے پہا ڑ بے دردی بے رحمی سے ڈھا ئے گئے ہما را معاشرہ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں شب و روز اپنی ’’کا ر کر دگی‘‘ ( یعنی عدم کارکردگی) کے ڈھول بجا تے ہیں۔ کاش! ہما را با نجھ بے حس معا شرہ اور انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اتنی بیدار چوکس ہو تیں کہ معصوم زینب جب درندگی کے بیلنے میں زندگی مو ت کی آخری سانسیں لے رہی تھی، یہ تنظیمیں اُس کے لیے مسیحا بن سکتیں ۔ ہما ری خفیہ ایجنسیاں جن پر ہمیں فخر ہے، کا ش! وہ مجرموںکے خلاف اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کر سکتیں ۔ ہمارا معاشرہ میڈیا ایجنسیاں ادارے حکو مت اپو زیشن جو اب انسانی حقوق کا راگ الاپ رہے ہیں ،زینب سے پہلے معصوم بچوں پر ہو نے والے ظلم پر آواز اٹھاتے، زینب سے پہلے جن معصوم کلیوں کو اِسی بے رحمی سے کچلا گیا زینب کے قاتل نے ،اس سے پہلے جن آٹھ بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کا مظاہرہ کیا ،کتنے آرام سے معاشرہ ادارے اہل قصور کے لو گ ہضم کر گئے !!!کیا درندگی کا نشانہ بننے والی بچیاں کسی کی بیٹیاں نہیںتھیں ؟پو لیس ، خادم اعلیٰ اپو زیشن اور میڈیا اب جو حقوق حقوق کی آواز بلند کر رہے ہیں پہلے کدھر تھے؟ اہل قصور کا احتجاج کر نا میڈیا کا شور مچانا پھر ملک کے ڈرامے فراڈی سیا ستدان بیاناتی جگا لیاں شروع کر گئے ۔ ہما ری بے حسی کا عالم ملا حظہ فرمائیں کہ اِس سے پہلے وہ درندہ بے رحمی سے بچیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہا تھا لیکن پو لیس عدالتی نظام میڈیا چین کی نیند سو رہے تھے، جیسے گا جر مو لی کا ٹ دی گئی ہو۔ ہما رے ملک کا یہ المیہ ہے کہ انصاف کے لیے لا شو ں کو سڑکوں پر رکھ کر ٹریفک بلاک کر نا پڑتی ہے کیو نکہ مظلوم کو اچھی طرح ادراک ہے کہ اُسے انصاف نہیں ملے گا ۔انصاف کے لیے طا قت ور با اثر سیاستدانوں کے ڈیروں پر جا کر غلا می کر نا پڑتی ہے، اِن کا میراثی بننا پڑتا ہے اور پھر ڈکیت پو لیس سے انصا ف کے لیے بھی انہیں پیسے دینے پڑتے ہیں۔ لگتا ہے ملک میں جنگل کا قانون نا فذ ہے، جس کا جو دل چاہے وہ کر جاتا ہے ،اُسے کسی قانون و عدالت کا کو ئی خو ف نہیں۔اگر آپ زینب کے قاتل کا نفسیاتی تجزیہ کر یں تو یہ واضح ہو تا ہے کہ ملزم کو ئی بہت چالاک پھر تیلا نہیںتھا کہ اُسے پکڑا نہ جا سکے، اہل محلہ اور تفتیشی ادارے ذرا سا دما غ استعمال کر کے قاتل کو پکڑ سکتے تھے ۔شدید حیرانی والی با ت یہ ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں میں ملزم جس طرح ننھی زینب کو لے کر جا رہا ہے، اہل محلہ آسانی سے ملزم کی چال ڈھال سے اُسے پہچان سکتے تھے۔ ہمارا پورا سسٹم اِس قدر با نجھ اور زنگ آلود ہے کہ عام انسان اُٹھ کر بڑے سے بڑا جرم کر تا ہے لیکن اُسے کو ئی پکڑنے والا نہیں ہے۔ اجتما عی طو ر پر بے حسی ہم پر غالب آچکی ہے ،ہمیں اجتما عی طو ر پر بیدار و چوکس ہو نا پڑے گا ۔اگر پو لیس اور عدالتی نظام دُرست سمت میں چلنا شروع کر دے تو کو ئی بھی انسان جرم کر نے سے پہلے سو با رسوچے گا ۔زینب کے قاتل نے جب پہلی بچی کے ساتھ یہ ظلم کیاتو اُسی وقت اُسے پکڑ لینا چاہیے تھا۔ ہما رے نظام کی کمزوری ملاحظہ فرمائیں ایک جاہل اُجڑ عام انسان سیریل کلر بن جا تا ہے، اُسے پکڑنے کے لیے پو را ملک حرکت میں آتا ہے تو وہ پکڑا جاتا ہے۔زینب پر جوظلم ہو ا ہے اِس کے ذمہ دار ہم سب ہیں، قصور ہم سب کا ہے، کسی کا زیادہ کسی کاکم۔ زینب کا کیس ہا ئی لا ئٹ ہو گیا، حالانکہ زینب سے پہلے جو بچیاں درندگی کا شکا ر ہو ئیں اُس وقت ہمیں بیدار ہو نا چاہیے تھا۔ زینب امین انصاری صاحب کی بیٹی نہیں تھی وہ پو ری قوم کی بیٹی تھی، وہ حواکی بیٹی تھی ،وہ معصوم کلی رنگوں سے لبریز تتلی تھی جو ہما رے معا شرے کی بے حسی اور انصاف سے خالی اداروں کی وجہ سے ظلم کی سولی پر لٹک گئی۔ ہما رے بانجھ زنگ آلو دہ نظام کی وجہ سے وطن عزیز کے ہر شہر گلی محلے میں ہر روز کو ئی زینب مسلی جا تی ہے ک،ُچلی جاتی ہے، ہمیں بحیثیت قوم زینب اور دوسری بچیوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ ہما رے تما م اداروں اور میڈیاکو زینب سے معافی مانگنی چاہیے ۔ جب تک ہم اپنی ذمہ داری اَحسن طریقے سے نہیں نبھا ئیں گے اُس وقت تک اِسی طرح وحشت درندگی کا یہ کھیل وطن عزیز کے ہر شہر محلے میںکھیلا جاتا رہے گا ۔ زینب کا معصوم چہرہ جب بھی سامنے آتا ہے تو خدا تعالی جو ستر ما ئوں سے بھی زیا دہ شفیق ہے، اُس کی بھی بے حسی لا پرواہی بے نیازی چبھتی ہے ۔اے خالق بے نیاز! ہما رے گنا ہوں کی سزا ہمیں دیا کر، زینب جیسی معصوم تتلیوں کو نہ دیا کر تُو تو ستر ما ئوں سے زیا دہ شفیق ہے، تیری رحمت تو غضب پر غالب ہے ۔اے رحم دل خدا! ہما ری معصوم کلیوں پر رحم فرما اے زینب! ہم تجھ سے معافی مانگتے ہیں ۔
ای میل[email protected]