۱۷؍ ستمبر کو پاکستان کے کورٹ لکھپت جیل لاہور میںقصور کے عمران علی نامی بدنام زماں درندے کو صبح سویرے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر سات سالہ زینب کی آبروریزی اور قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا گیا ۔ مجرم کو یہ سزائے سخت سنگین جرم کے ارتکاب کے تقربیاً نوماہ بعد دئے جانے پر تمام باضمیر لوگوں نے راحت کی سانس لی ۔ اگرچہ زینب کے کم نصیب والد کی شدید خواہش تھی کہ ریاست ِمدینہ کی تقلید میں مجرم کو سر عام پھانسی دی جائے تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں مگر حکومت نے اُن کی ا س خواہش کو مصلحتاً قابل اعتناء نہ سمجھا۔یاد رہے کہ رواں سال 4؍ جنوری کو قصور پاکستان کی رہائشی7 ؍ برس کی معصومہ زینب کو23 ؍سالہ سفاک مجرم عمران علی نے پہلے اپنے ہوس کا شکار بنایا اور پھر قتل کر ڈالاتاکہ اُس کے سنگین جرم کا راز قیامت تک فاش نہ ہو ۔اس بد ترین المیہ نے تمام پاکستانیوں کا ضمیر اُسی طرح جنجھوڑ کے رکھ دیا جیسے کھٹوعہ کی آٹھ سالہ آصفہ کی اجتماعی عزت ریزی اور مابعد سفاکانہ قتل پر کشمیر سمیت ملک بھر میں اس مظلومہ کے حق میں ہمدردی کی لہر دوڑگئی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ زینب کا گھرانہ مجرم کے گھروالوں کے ساتھ ہمسائیگی کے رشتے میں بندھا ہوا تھا، دونوں گھرانوں میں آنا جانا بھی تھا۔ اس لئے جب اس دوہرے جرم میں ملوث مجرم کی نشاندہی کروانے ا ور اسے کیفر کردار تک پہنچاننے کے لئے قصور میں جلسے جلوس ہوئے ،اُن جلسے جلوسوں میںیہ انسان نما درندہ بھی پیش پیش رہتا تھا تاکہ کسی کو خواب وخیال میں بھی اس کے مرتکب ِ جرم ہونے کا شک نہ گزرے ،لیکن رازوںا ور بھیدوں کا حال جاننے والی ذات نے زینب کی چیخ وپکار کی لاج رکھتے ہوئے اس درندے کی اصلیت صرف پانچ دن بعدسی سی ٹی وی کی مدد سے تفتیش کاروں پر واضح کردی ۔چناںچہ قاتل کی شناخت ہوئی ، وہ عدالت میں پیش ہوا ، اور ا س کی تفتیش سے خلاصہ ہو اکہ معصومہ زینب اس درندے کا تیرواں شکار تھی ، قبل ازیں اس شقی ا لقلب مجرم نے بارہ معصو م بچیوں کی عزت لوٹ کران کی جانیں بھی لی تھیں۔ بلاشبہ اب مجرم کی پھانسی سے ان مظلوموں کی تڑپتی روحوں کو بھی سکون آگیا ہوگا اور خود زینب کا زخم بھی تھوڑا بہت مندمل ہواہوگا۔ یہاںریاستی عوام نے جب قاتل ِزینب کے حشر کی خبر سنی تو انہیں ضرور مظلومہ آصفہ کی یاد آئی ۔ آصفہ کا مقدمہ ا س وقت مجاز عدالت میںزیر سماعت ہے اور ا س ضمن میں سات ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ بہرصورت لوگ باگ اگرچہ دل سے چاہتے ہیں کہ ماں بہن بیٹی کی عزت وناموس کا جو تاب ناک ورثہ ہمیں اپنے پر کھوں سے ملاہے،اُسے ہر حال میں فوقیت حاصل ر ہے تاکہ یہاںبنت ِحواکی تکریم وتقدیس، رشتوں کی عظمت اور غیرت وحمیت کی پُروائیاں متواتر چلتی رہیں لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ اچھا خیال اس وقت تک محض ایک خام خیالی کہلائے گا جب تک پورا معاشرہ اور ریاستی ادارے اُن مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دلانے میں یک زبان نہ ہوں جو طبقہ ٔ نسواں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جسارت کرنے کے مر تکب پائے گئے ہوں۔ افسوس صد افسوس! زمانے کی ناہنجار یوں کے ہاتھوں ہمارا سرمایہ ٔ اخلاق لُٹ جانے سے معاشرے کی وسیع وعریض جھولی انسانی قدروں سے تہی دامن ہوتی جا رہی ہے۔ یہی و جہ ہے کہ پے درپے جنسی زیادتیوں کی شرم ناک کہا نیاں اور دلخراش قصے گاہے گاہے المیوں کی سرزمین کشمیر کواور زیادہ غم زدہ کر کے چھوڑتے ہیں۔ ترکانجن اوڑی بونیار کی مظلوم بیٹی مسکان اس سلسلہ و ار درد بھری کہانی میں تازہ ا ضافہ ہے، جب کہ تابندہ غنی، صبرینہ فیاض،رومانہ جاوید جیسے زخم حساس لوگوں میں برا بر درد کی ٹیسیں اُٹھا تے جارہے ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ معصوم کلیوں کو بے دردی کے ساتھ مسل ڈالنے والے مجرموں کو پھا نسی دینے سے یہ مقتول بچیاں واپس نہیں آسکتیں مگر زینب کے اہل خانہ کی مانند کم ازکم ان کے لواحقین کو یہ تسلی تو ہو گی کہ انہیں دنیوی انصاف ملا ۔16 دسمبر2012 ء کو دلی میں دامنی المیہ وقوع پذیر ہو اتو پورے ملک میں اس وقت تک چین کی سانس نہ لی گئی جب تک مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے نہ دھکیلا گیا۔اس وقت پورے بھارت میںناری بچا ؤ آندولن چھڑ گیا تھا ، مشتعل لو گوں نے دامنی کے حق میں احتجاجی مظاہر وں سے پورے ملک کو اس قدر ہلا دیا تھا کہ مر کز کو فوراً سے پیشتر خواتین کی حفاظت مکمل طوریقینی بنا نے کے لئے جسٹس ورما کمیشن کو معرض ِ وجود میںلا نا پڑااور کمیشن نے مختصر مدت میںدامنی واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر خواتین حامی قوانین کو مزید سخت بنانے، بنت حوا کی عزت کو ہرحال میں محفوظ رکھے جانے اورناریوں مہیلاؤں کی زندگیوں اور سماجی وقار کو مکمل قانونی تحفظ دینے کے لئے قابل صد ستائش سفارشات مر تب کیں ۔ یہ الگ موضوع ِبحث ہے کہ اس ڈمیج کنٹرول کے باوجود ا ُس وقت بھی اور آج کل’’ می ٹو مہم‘‘ کے باوصف بنت ِحوا کے تعلق سے ایسے ایسے ننگ ِانسانیت واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ قلم اُنہیں بیان کرنے سے قاصر ہے ۔لگتایہ ہے کہ ان حوالوں سے پرانے پاپیوں نے خواتین کی حفاطت کے لئے واویلا کر نے والے باضمیرشہریوں سمیت جرائم کے خلاف صرف قانونی کتابوں کی ضخامت بڑھانے والوں کو ہمیشہ یہی ایک پیغام دیا کہ تمہارا یہ احتجاج ، یہ رونا دھونا اور یہ تمہارے قانون کی بڑی بڑی کتابیں جرم اور پاپ کا راستہ کھوٹا کرنے میں ہمارے سامنے بے کار اور فالتو چیزیں ہیں۔ ماں بہن بیٹی کی عزت کی حفاظت ممکن بنانے میںارباب ِ اقتدار اپنی منصبی ذمہ داریوں سے کنی کتراتے ہیں ، خاص کر ہماری ریاست میں ایسی ایک بھی مثال قائم نہ کی گئی کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ صنف ِنازک کی عزت وآبرو سے کھلواڑ کر نے کا جو بھی کوئی جرم کر ے ،اُسے قانون سزا دئے بغیر نہیں چھوڑتا ۔ کاش ہمارے کرم فرماؤں نے ایک آدھ بار ہی سہی خواتین کے خلا ف جرم کے مرتکبین کو قرارواقعی سزا دی ہوتی تو اول ایسے مجرم درندے جرم اورگناہ کی سرحد پر ٹہلنے کی بے جا جسارت ہی نہ کر تے اور دوئم جرم کی اوراُن کے بڑھتے ہوئے قدم سزا و عقوبت کے تصور سے ہی خود بخود رُک جاتے ۔ بہرصورت سماج میں خواتین کے رُتبہ اور وقار کو بلند کر نے اور ان کی ہمہ پہلو حفاظت یقینی بنانے کے لئے امر لازم ہے کہ عدالتوں میں ا س نوع کے تمام مقدمات کا جلد ازجلد نپٹار ا ہو جو خواتین کی عزت آبرو یا اُن کے خونِ ناحق سے جڑے ہیں ۔ وقت کی پکارہے کہ زینب کے مجرم کی طرح ایسے صدہا مجرموں کو اپنے کئے کی کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ حقوق ِ نسواںکا احترام ہو اور حواکی بیٹیوں کا مقام ومرتبہ محفوظ ہو۔ بے شک آج بے انتہا خرابیوں کے باوجود زبانی کلامی سماج ،قانون اور ملکی نظم ونسق چلانے والے ادارے اس امر پر متفق علیہ ہیں کہ کسی خاتون یا دوشیزہ کی عزت یاجان پر ہاتھ ڈالنے والا قابل گردن زدنی ہے لیکن اس نیک خیال کو عملانے کے لئے فی الوقت ضروری ہے کہ انصاف کے تمام تر لوازمات کو پورا کر تے ہوئے بنت ِحوا کے خلاف جرائم میں ملوثین کے تمام نئے اور پرا نے کیسوں کو سریع الحرکت عدالتوں کے ذریعے فوراًنپٹایا جا ئے اور مجرمین کو جلدازجلد قانون کے عین منشا ء کے مطابق قرار واقعی سزا دی جا ئے تاکہ صنف ِنازک کی عزت و تکریم کو کسی بھی گوشے سے بھٹہ لگنے کا کوئی خطرہ نہ رہے اور متاثرہ خواتین کی بے چین روحوں کوقرارآئے۔