کامعصوم زینب کی عصمت ریزی اور قتل کے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرم عمران کو پاکستانی عدلیہ کے حکم کے مطابق 17 ؍اکتوبر کی صبح تختہ دارپر لٹکا دیا گیا۔پاکستانی خبر رساں اداروں کے مطابق پھانسی کے وقت زینب کے والد بھی وہاںموجود تھے اور اس طرح زینب کو بالآخر دنیوی انصاف مل ہی گیا۔ زینب کو حیوانیت کا نشان بنانے کے چند روز بعد ہی جموں وکشمیر کے ضلع کھٹوعہ کی ۸؍ سالہ معصوم آصفہ کو بھی انسان نما بھیڑیوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کراُس معصوم کلی کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔ اس پوری واردات کو بڑی رازداری کے ساتھ بڑے منظم طریقے سے انجام دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح مندر کے پجاری کی مدد سے بھگوان کے سامنے مندر میں ہی ننھی آصفہ کو بہیمیت کا نشانہ بنایاگیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر چہ ہندو دھرم ایسے ہر اپرادھ کی نندا کر تاہے مگر کل یُگ دیکھئے کہ کسی ایک بھی ہندوسنگھٹن نے کھٹوعہ واقعے پر اپنی ناراضگی ظاہر نہ کی بلکہ اس کے برعکس آصفہ کے والدین اور رشتہ داروں کو جس طرح ڈرایا دھمکایا گیا ،وہ ہر شخص پر عیاں ہے۔ البتہ کھٹوعہ عصمت ریزی معاملے پر پوری دنیا ئے انسانیت نے تڑپ تڑپ کر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی مانگ کی۔ یہ مجرم کون تھے، وہ سب کے سامنے ننگے ہیں ۔ کھٹوعہ کے رسانہ علاقے(جہاں آصفہ اپنے خانہ بدوش بکروال والدین کے ساتھ رہتی تھی) میں رہنے والے سابق تحصیلدارا ور مندر کے پجاری سانجھی رام نے اس پوری گھنائونی سازش کو رچایا تھا ۔ اس نے دو پولیس اہل کاروں کے علاوہ اپنے بیٹے اور بھتیجے کی مدد سے ایک مقامی مندر میں اغواء شدہ آصفہ کو نشیلی ادویات کھلا کھلا کر اُس معصوم کلی کے ساتھ کئی روز تک اجتماعی عصمت ریزی کروائی اور آخر پھر اُسے موت کی نیند سلا کر ایک قریبی جنگل میں پھینکا گیا۔ جب یہ مکروہ اور ناپاک سازش بے نقاب ہوئی توریاست کے ا ندر اور باہر آصفہ کو انصاف دلانے کے حق میں دامنی کی طرح آوازیں اُٹھیں۔ پاکستان میں اسی نوع کے ظلم کی شکار زینب اور جموں میں ایسی ہی زیادتی کا ہدف بنی آصفہ کو گویا دو سگی بہنیں تھیں جن کے ساتھ درندگی کی انتہا ہوئی ۔ قصور پاکستان کی بیٹی زینب کے ساتھ جو کچھ ہو اوہ صرف جرم اور سزا کی کہانی ہے مگر کھٹوعہ کی سرگزشت محض جر م نہیں بلکہ یہ اپنے پیچھے مسلمانوں کے خلاف ایک منافرت آمیزمجرمانہ سازش کا ایک حصہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آصفہ کے مجرموں کو اپنے کئے پر عدالتی کارروائی سے بچانے کے لئے فرقہ پرست عناصر نے بشمول دو عدد بھاجپا وزراء جلسے جلوس کئے اور ترنگا تک کا غلط استعمال کر نے سے نہ چوکیں ، یہاں تک کہ جموں اور کھٹوعہ کی بار ایسوسی ا یشنوں نے بھی ناانصافی کا کھل کر ساتھ دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہ کی ۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ ان ریلیوں کے منتظمین حکمران جماعت بی جے پی کے کرتا دھرتا تھے۔ْاتنا ہی نہیں بلکہ خاتون ایڈوکیٹ دپیکا سنگھ رجاوت ، جنہوں نے آصفہ کیس لڑنے میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بروئے کار لاکر ایک کلیدی کردار ادا کیا، کو بھی انسانیت کے دشمنوں نے طرح طرح کی دھمکیاں دیں ۔
آج جب پاکستانی عدلیہ نے زینب کے مجرم عمران کو پھانسی پر لٹکا کر اپنے کیفر کردار تک پہنچا دیا ہے ، سوال یہ اُٹھتا ہے کہ معصومہ آصفہ کو آخرکب انصاف ملے گا؟ کیا اس بچاری کے ملزموں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچاننے کے لئے قیامت تک کا انتظار بھی کم پڑے گا؟ جس مجاز عدالت میں آصفہ کے ملزمان کے خلاف مقدمہ چل رہاہے ،اسے ابھی اور کتنا و قت اپنا حتمی فیصلہ سنانے کے لئے چاہیے ؟ ہمیں یہ حقیقت جاننی چاہیے کہ جمہوریت وہی زندہ رہتی ہے جہاں عدالت سچ کا عَلم ہر حال میں بلند رکھے اور جھوٹ کے قلعے مسمار کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آصفہ کے لئے انصاف کی منتظر نظریں عدالت پر مرکوز ہیں بلکہ اپنے دلوں میں بلا تمیز مذہب وملت انسانیت کا درد رکھنے والے سبھی افراد چیخ چیخ رہے ہیں کہ آصفہ کے مجرموں کو جلدازجلد پھانسی پر لٹکاکر نشانِ عبرت بناؤ تاکہ ماں بہن بیٹی کی عزت سے کھلواڑ کر نے والوں کا بیڑہ غرق ہو ۔اس وقت ملک میں خواتین میں عدم تحفظ کی لہر پائی جاتی ہے ۔ چنانچہCOMMONWEALTH HUMAN RIGHTS INITIATIVE(CHRI) کی 2013 کی رپورٹ،جسے’’ ٹایمز آف انڈیا‘‘ نے بھی شایع کیا تھا ،کے مطابق بھارت میں ہر روز 57؍ عصمت ریزیوںکے معاملات پیش آتے ہیں،یاں یوں کہہ لیں کہ ہر 30 منٹ کے بعد ایک لڑکی کو جنسی درندوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ 2013 کے بعد ہندوستان میں پے در پے عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ واضح رہے کہ جن عورتوں کو جنسی ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ان میں سے بہت کم معاملات دنیا کے سامنے آتے ہیں اور پھر کتنی مظلوم خواتین کو انصاف ملتا ہے اور کتنے مجرموں کو سزا دی جاتی ہے ،اس بات پر جتنا واویلا کای جائے کم ہوگا۔
آصفہ کی عصمت ریزی کا معاملہ اس سال جنوری کے مہینے میں پیش آیا تھا۔تب سے اب تک 10؍ ماہ ہو چکے ہیں لیکن آصفہ کے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا ابھی تک باقی ہے۔آج ملک میں’’ بیٹی کے بچائو‘‘ کے لئے نعرے بلند کئے جاتے ہیں ، سیمینار ہوتے ہیں اور مختلف النوع پروگراموں کا انعقاد ہوتا ہے مگرزمینی حقائق کہہ رہے ہیں کہ نعرہ زنیوں اور دعوؤں کے باوجود ملک میں عورتوں کے خلاف جرائم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ قابل ذکر بات ہے کہ حکومت ِ ہند نے حال ہی میں ایک نئے قانون کو وضع کیا جس کے مطابق 12؍ سال تک کی کسی بھی بچی کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے والے کو سزائے موت دی جائے گی مگر سوال یہ ہے کہ جو 12؍ سال سے زائد عمر کی خواتین سے اپنا منہ کالا کرے کیا اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوگا؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عمر کی تعین کی جائے ؟ماں بہن بیٹی کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ جو کوئی ان سے دست درازی کا مر تکب پایاجائے اُسے جلدازجلد عدالتی کارروائی کے بعد سولی پر چڑھا جائے چاہے متاثرہ خاتون کی جو کوئی عمر ہو ۔ ہم اور آپ آئے روز یہ افسوس ناک خبریں پڑھتے یا دیکھتے ہیں کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین میں زیادہ تعداد اُن کی ہوتی ہے جن کی عمریں 12 سال سے زائد ہیں۔خواتین کے ساتھ ظلم کی یہ کہانی یہی نہیں رُکتی بلکہ زیادہ تر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان پر زیادیتوں کے بارے میں سچائیاں چھپا کر جھوٹ پھیلانے میں ایک دوسرے سے سبقت لیتا ہے کیونکہ مجرم اور ان کے سیاسی حواری میڈیا والوں کی مٹھیاں گرم کر کے ان کا ضمیر خریدتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ اب بھی بکاؤ نہیں بلکہ حق بتاؤ مشن پر گامزن ہے ۔
بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں عورت کو’’دیوی‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس کی مورت بنا کر اس کی پوجا کی جاتی ہے لیکن ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت ساری دنیا میں ان ممالک میں سرفہرست ہے جسے عورتوں کے تحفظ کے لئے خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ عورتوں کے لئے’’ سب سے خطرناک ملک ‘‘کا خطاب ملنا ہمارے ملکی نظام پر ایک بہت بڑا داغ ہے اور یہ داغ اس وقت تک ملک کے دامن پر لگا رہے گا جب تک آصفہ اور دامنی جیسی مظلوموں کے مجرموں کو کڑی سزا نہیں ملتی۔ ہم آئے دن یہ بھی سنتے ہیں کہ مودی حکومت مسلم عورتوں کو ان کا ’’حق دلانے‘‘ میں کوشاں ہے اور اسی آڑ میں مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کر کے مسلم پرسنل لاء کو بگاڑ کر رکھنے کا منصوبہ ہے۔ بجائے ا س کے کہ حکومت ہندو مہیلاؤں کے ساتھ اتیا چار کا مداوا کرے مودی سرکار بلاوجہ سہ طلاق جیسے مسائل کارونا رو رہی ہے۔ اگر حکومت ِ وقت کو خواتین کی اتنی ہی فکر ہے تو پھر آسا رام اور رام رحیم جیسے مجرموں کو کب کا تختۂ دار پر لٹکانا چاہیے تھا۔ کیاان درندوں نے دُکھوں اور تکلیفوں کی ماری خواتین کی عزتوں اور عصمتوں پر ڈاکہ نہیں ڈالا،وہ بھی مذہب کی آڑ میں ۔ ان مجرم ڈھونگیوں کو کب پھانسی دی جائے گی جنہوں نے اپنی منہ بولی بیٹیوں تک کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ہمارے ملک بھارت میں انصاف کا لفظ کتابوں تک محدود ہو کر رہے گا
اگرزینب کی طرح وقت کی تمام آصفاؤں ، نیلوفروں ، آسیاؤں کو انصاف نہیں ملتا۔ مظلوموں کی آنکھیں وہ دن دیکھنے کو ترستی ہیں جب ریاست میں گزشتہ بر سہابرس سے حیوانی ہوس کنن پوش پورہ سے کھٹوعہ تک پھیلی مظلوم ومقہور خواتین کے ہرے زخموں پر دنیوی ا نصاف کا مرہم رکھتے ہوئے ان کے مجرموں کو زینب کے مجر م کی مانند سزائے سخت دی جائے گی۔
8492956626