یو این آئی
غزہ//اسرائیلی فوج نے گذشتہ تین روز کے دوران غزہ کے علاقے زیتون میں 300سے زائد گھروں کو مسمار کیا ہے۔غزہ میں شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیلی افواج نے زیتون میں بھاری حملے کیے، جن میں پانچ یا اس سے زیادہ منزلوں والی عمارتوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔انہوں نے کہا کہ استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کی وجہ سے آس پاس کے ڈھانچے منہدم ہوگئے ، کچھ مکانات تباہ ہوگئے جبکہ رہائشی ابھی بھی اندر ہیں۔باسل نے کہا کہ انہدام بغیر پیشگی انتباہ کے کیا گیا تھا اور شدید بمباری نے امدادی ٹیموں کو زخمیوں تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔وسطی غزہ میں واقع زیتون کے علاقے کو قتل عام کے دوران بار بار اسرائیلی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق، مسماری کی تازہ ترین لہر اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ علاقے میں شہریوں کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے جاری قبضے کے منصوبے کا حصہ ہے۔شہری دفاع کے عملے نے بتایا کہ مسلسل بمباری کی وجہ سے بہت سے مقامات تک پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس سے خدشہ ہے کہ لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔عینی شاہدین نے بتایا کہ زیتون کے کچھ حصوں میں پورے بلاک کو تہس نہس کردیا گیا ہے۔مقامی صحت حکام کے مطابق اکتوبر 2023 میں غزہ میں اسرائیل کے قتل عام کا آغاز ہوا تھا جس میں اب تک 61 ہزار 700 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے نصف خواتین اور بچے ہیں۔گھروں کی تباہی نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے ، جن میں سے بہت سے لوگ خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔بین الاقوامی فوجداری عدالت نے گذشتہ نومبر میں غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یاو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بڑے پیمانے پر شہری املاک کو نقصان پہنچانا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، جو اجتماعی سزا اور شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی ممانعت کرتا ہے۔