ڈاکٹر عریف جامعی
ربّ تعالیٰ نے انسان کو عقل و فکر عطا کرکے شرف اور امتیاز بخشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ جاننے کی جستجو کرتا رہتا ہے۔ انسان کے جاننے کے اسی عمل سے کائنات کی مختلف اشیاء کے درمیان ایک مطابقت قائم ہوتی ہے۔ اگر انسانی فکر معلوم سے نامعلوم کا یہ سفر طے نہ کرے، تو انسان اور باقی حیونات کے درمیان کوئی خط امتیاز قائم نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ انسانی تہذیب و تمدن نہ صرف یہ کہ کوئی ترقی نہیں کرسکتا، بلکہ سرے سے اس کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ غور و فکر اور استدلال و استنباط ہی ہے جس کے ذریعے انسان کا ذہنی اور عقلی سفر جاری رہتا ہے اور وہ کائنات کے مختلف عوامل کی تسخیر اور تعمیر جاری رکھتا ہے۔
اپنے ذہنی سفر کو جاری و ساری رکھنے کے لئے انسان کو اپنے پیدا شدہ ذہنی سرمائے کی تحفیظ و ترویج کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے انسان اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قلم و قرطاس کا استعمال کرتا آیا ہے۔ انسان اگرچہ علم کا زبانی انتقال بھی کرتا رہتا ہے، لیکن اس طریقے سے علم کی مکمل ترسیل، ترویج اور تحفیظ نہیں ہوسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حفظ کی اعلیٰ ترین صلاحیت کے ساتھ ساتھ رب تعالیٰ نے انسان کو کچھ ایسے طریقے سکھائے جن سے ایک نسل کا علمی و ثقافتی سرمایہ آسانی کے ساتھ دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ واضح رہے یہ طریقے بھی انسان نے دراصل اسی ذہنی اور فکری استعداد کا استعمال کرکے سیکھے اور دریافت کئے، جن کے ساتھ رب تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ (النحل، ۷۸)۔ ظاہر ہے کہ انسان کی سماعت، بصارت اور ذکاوت نے نخلستان علم کو خدا کے دیئے ہوئے آلۂ علم یعنی قلم کے ذریعے ہی سجایا: ’’جس (رب) نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔‘‘ (العلق، ۴)
تاہم نوک قلم سے نکلنے والے حروف کا ظہور چونکہ کاغذ پر ہوتا ہے، اس لئے قلم اور اس سے لکھی جانے والی سطور کو انسانیت کی ’’تاریخ تکمیل اخلاق ‘‘کے لئے گواہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے: ’’ن۔ قلم کی قسم کے اور اس کی جو اس سے لکھتے ہیں۔ آپ اللہ کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں۔ اور آپ کے لئے تو بے شمار اجر ہے۔ اور بے شک آپ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں۔‘‘ (القلم، ۱۔۴) ظاہر ہے کہ قلم نے اس گواہی کو قراطیس پر ہی ثبت کیا ہے۔ یہی قراطیس ہمارے سامنے صحائف اور کتب کی صورت میں موجود رہتے ہیں۔ یہی کتابیں انسان کی روایت علم و فکر کو محفوظ کرنے اور آگے بڑھانے کی ضامن ہوتی ہیں۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتاب فقط اوراق کی جلد بندی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس یہ دراصل مصنف یا عالم کے نظریات، مشاہدات اور تجربات کا صفحات پر انتقال ہوتا ہے۔ یعنی مصنف کی دہائیوں پر مبنی محنت شاقہ کتاب کے اوراق کو زینت بخشتی ہے۔ ان صفحات کا چند دنوں یا ہفتوں میں مطالعہ کرکے قاری ان تجربات کا عرق کشید کرلیتا ہے۔ یعنی قاری اگلی نسل کا علم اپنی آنے والی نسل کی طرف منتقل کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان علمی اور فکری لحاظ سے کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔ آنے والے لوگوں کو اپنے فکر کے لئے کوئی نئی بنیاد نہیں رکھنا پڑتی۔ انہیں علم کے لئے ایسی بنیاد فراہم ہوتی ہے کہ وہ صرف پرانے فکر میں حذف و اضافہ کرکے علم کا نیا قصر تعمیر کر لیتے ہیں۔
تاہم ایسا صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب علم سے منسلک لوگ سچے قاری ہونے کا ثبوت فراہم کرسکیں۔ یعنی جب تک نہ لوگ پڑھنے یا بالفاظ دیگر کتاب کے ساتھ حقیقی تعلق قائم کر لیں، تب تک سچے معنوں میں انتقال علم و فکر ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں کتاب بینی کو فروغ دینے کے لئے ایک قسم کے تہوار منائے جاتے ہیں، جنہیں عرف عام میں کتاب میلے یا بک فیسٹولز کہا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تہوار کے موقعے پر بستیاں اپنے معمول کے کام چھوڑ کر کسی واقعے کی یاد منانے کے لئے ایک جگہ جمع ہوتی ہیں۔ یاد قائم کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ایک قسم کا عہد کرے کہ اس یاد کی اصل کو قائم و دائم رکھا جائے۔ تاہم یہ موقع یاد برائے یاد نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں سبھی لوگ اپنا کردار ادا کرنے کا عہد باندھیں۔
کشمیر ازمنۂ قدیم سے ہی علم و فکر کا گہوارہ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سر زمین نے اعلیٰ پایہ کے مصنفین، مفکرین اور فلاسفہ پیدا کیے ہیں۔ جب اہلیان کشمیر نے اسلام قبول کیا، تو یہ روایت آگے بڑھتی اور فروغ پاتی رہی۔ تاہم اس روایت نے توحید، اخلاق عالیہ، اکرام و مساوات انسانیت، انسانی ہمدردی اور مہمان نوازی کے رویوں کو پروان چڑھایا۔ ظاہر ہے کہ کتابوں کی اشاعت، کتابوں کی خریداری اور سب سے زیادہ کتابوں کی قرأت سے یہ روایات مضبوط ہوتی ہیں۔ ان روایات کو فروغ دینے کے لئے ہی کتاب میلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر دہائیوں سے ان میلوں کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم پچھلے دو سال سے کتابوں کا یہ تہوار چنار کتاب میلے کے نام کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے۔
راقم گورنمنٹ ڈگری کالج، سوپور میں زمانۂ طالب علمی سے ہی کتابوں کا شوقین رہا ہے۔ یہ شوق نسیم باغ (شعبۂ اسلامک اسٹڈیز)، دانش گاہ کشمیر میں پروان چڑھا۔ پچھلی ڈیڑھ دہائی سے راقم پٹن، سوپور، بارہمولہ اور نئی دہلی کے مختلف کتب فروشوں سے کتابیں خریدتا آیا ہے۔ اس لئے زبرون پہاڑی سلسلے کے دامن، جھیل ڈل کے کنارے واقع شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں منعقد ہونے والا کتابی تہوار راقم کے لئے بڑی دلچسپی کا باعث رہا۔ راقم اول روز سے ہی اس میلے میں شرکت کا خواہاں رہا، لیکن ۹ اگست ۲۰۲۵ ء کو ڈگری کالج، سوگام کے چند بچوں کو ساتھ لیکر اس میں شرکت کا موقع ملا۔
اس دورے کے لئے بائز ڈگری کالج، کپوارہ نے گاڑی کا انتظام کیا تھا۔ اس لئے ہمارے کالج کے بچے سوگام سے صبح آٹھ بجے کپوارہ پہنچے۔ یہاں سے یہ بچے ویمن ڈگری کالج، کپوارہ کی بس میں سوار ہوئے اور گاڑی صبح نو بجے کپوارہ سے سرینگر کی طرف روانہ ہوئی۔ راقم سوا دس بجے سوپور میں ان بچوں کا شریک سفر ہوا۔ چونکہ قومی شاہراہ کی تعمیر نو جاری ہے، اس لئے سڑک پر گاڑیوں کا کافی جماؤ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوا گھنٹے کا سفر دو گھنٹوں میں طے ہوا اور ہم لوگ ایک بجے دوپہر ایس۔کے۔آئی۔سی۔سی۔ پہنچے۔ احاطے میں داخل ہوتے ہی جہاں اس مرکز اجلاس (کنونشن سینٹر) کے پر سکون ماحول نے متاثر کیا، وہیں زبرون پہاڑی سلسلے کی آغوش میں قائم مغل باغات اور دامن کی طرح پھیلے ہوئے جھیل ڈل کے نظاروں سے وادی پر مہربان ذات ذوالجلال، جو خود جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے (مسلم)، کے لئے راقم کا دل ثناء و سپاس گزار ہوگیا!
راقم نے پہلے ہی ارادہ کیا تھا کہ چند مستند مصنفین کی کچھ مستند کتابیں خریدی جائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ میں ایک ایسے اسٹال پر پہنچا، جہاں حسن اتفاق سے میرے چہیتے، لیکن عالم اسلام کے ایک مشہور مفکر و مصنف کی چند نئی لیکن نہایت مفید کتابیں ملیں۔ میں نے اس ناشر کے نمائندے کو بہت ہی خلیق اور ملنسار پایا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس شخص کا خلق فقط ’’کاروباری اخلاق‘‘ (بزنس اتھکس) کا مظہر نہیں تھا، بلکہ اس کا برتاؤ اسلامی اخلاق کا فطری اظہار تھا۔ یہاں پر کتابوں کی خریداری کے دوران میں نے وادی کے ایک مشہور مقرر اور مبلغ کو کرسی پر براجمان پایا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے ساتھ کچھ کلام کیا جائے۔ تاہم یہ کلام صرف سلام تک محدود رہا! اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ راقم بچپن سے ایک ’’داخل رخی‘‘ (انٹروورٹ) انسان واقع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ انٹروورٹ ہونے کے جہاں کئی فائدے ہیں، وہاں اس رویے کے اچھے خاصے نقصانات بھی ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسا شخص زیادہ معاشرتی رابطے نہیں بنا پاتا۔
اس کتابی تہوار کی ایک خاص اور خوش آئند بات یہ بھی رہی کہ وادی کے اطراف و اکناف سے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات نے نہ صرف کتابوں کی زیارت کی، بلکہ ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد نے اپنی استطاعت اور پسند کے مطابق کتابیں بھی خریدیں۔ اس ضمن میں یہ بات نہایت ہی حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہے کہ کئی طالبات، جدید لباس میں ملبوس لیکن باحجاب، اسلامی کتابوں کی خریداری کرتی ہوئی نظر آئیں۔ ایک طالبہ نے قرآن مقدس کا اردو ترجمہ اس شوق سے خریدا کہ جیسے وہ بہت کچھ پڑھنے کے بعد کتاب ہدایت کی تلاش میں تھی۔ بچی کو باپردہ دیکھ کر راقم کے ذہن میں علامہ کا یہ شعر آیا:
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
تاہم جس اشتیاق کے ساتھ یہ بچی قرآن کا ترجمہ ڈھونڈ رہی تھی، اس نے اطمینان دلایا کہ اس کی یہ تلاش علامہ کے ان شعار کی تشریح ہے:
(مرید ہندی:)
پڑھ لیے میں نے علوم شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب
(پیر رومی:)
دست ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
کتاب میلے میں اگرچہ شائقین کتب کے لئے بہت کچھ میسر تھا، لیکن میلے میں کتب بینوں کے علاوہ ’’مشتہرین خویش‘‘ (گلوری ہنٹرس، اٹینشن سیکرس) کی ایک اچھی خاصی تعداد ہر روز موجود رہتی تھی، جو کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں اٹھاکر تصویر بنواتے تھے، تاکہ معاشرتی ابلاغ کی بھرمار کے اس زمانے میں وہ خود کو ’’پڑھاکو‘‘ یا ’’بسیار بین‘‘ ثابت کرسکیں۔ اس ’’برادری‘‘ کا ان لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جو ناشرین کی جائز ضرورت کے مطابق کتابوں کی تشہیر کرتے تھے۔ یہ کتاب میلہ مجموعی طور پر ذوق جمال کو فرحت بخشنے والے ماحول میں قارئین اور محبان کتب کے ذوق مطالعہ کی تسکین کررہا تھا۔ تاہم رفع حاجت اور پینے کے صاف پانی کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ڈل کنارے بسائی گئی کتابوں کی اس بستی کا پرکیف ماحول ایک طرف تعفن کا شکار ہورہا تھا اور دوسری طرف شائقین کتب کو پیاس سے نڈھال کررہا تھا۔ اس لئے پنڈال سے باہر آتے ہی ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ’’چنار کتاب میلہ‘‘ اس چنار کے ساتھ کوئی خاص مطابقت نہیں رکھتا جو راحت، سکون، سلامتی، ٹھنڈک اور نظافت کے ساتھ ساتھ کشمیر کے لئے ماحولیاتی توازن کا عظیم نشان ہے!
(مضمون نگار محکمۂ اعلی تعلیم، جموں و کشمیر میں اسلامک اسٹڈیز کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ۔ 9858471965