اِکز اقبال
موبائل فون اور انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں لاشعوری طور پر ایک ناگزیر ضرورت بن چکے ہیں اور اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی کرنا تخیلی معلوم ہوتاہے۔
مگر تازہ اعداد و شمار کے مطابق یہ ڈیجیٹل آلات ہماری ذہنی نشوونما کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی نشوونما پر سب سے زیادہ اثر پڑ رہاہے اور اسکی وجہ سے نسلِ نو کا بچپن اور معصومیت کہیں کھو گیا ہے،اور اُن کی ذہانت بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔
اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون تھمانے سے ہم اپنے بچوں کے ساتھ جو کر رہے ہیں، کوئی بھی بہانہ ہمیں اس کا جواز نہیں دیتا، ہم ان کے مستقبل اور نشوونما کو خود اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیں۔ ان کا مستقبل خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ موبائل فون کے بے لگام استعمال سے نئی نسلیں پچھلی نسلوں کے مقابلے میں کم ذہین ہوتی جا رہی ہیں ۔
فرانسیسی نیورو سائنسدان مائیکل ڈیسمرگٹ کی حالیہ کتاب ’’ ڈیجیٹل کریٹن فیکٹری ‘‘ میں شائع کی گئی تحقیق کے مطابق آج کی نسل نو اور بچے سکرین ٹائم کی وجہ سے بہت زیادہ ذہانت کھو رہے ہیں، جس کے اثرات ان کے مستقبل میں سامنے آئیں گے۔
موجودہ نسل میں آئی کیو (انٹیلی جنس کوشینٹ) کم ہونے کے مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مگر سارے اسباب میں جو سبب سب سے نمایاں ہے، وہ ہیں بچوں کا اسکرین ٹائم ۔
متعدد تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جب ٹیلی ویژن ، ویڈیو گیم اور موبائل فون کا استعمال بڑھتا ہے تو آئی کیو اور علمی نشوونما میں کمی واقع ہوتی ہے۔ زیادہ اسکرین ٹائم کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں کی ذہانت ، توجہ، یادداشت وغیرہ سب متاثر ہوتا ہے اور پھر بچوں کی سکولوں اور کالجوں میں کارکردگی پہلے جیسی نہیں رہتی۔بچوں میں ذہانت کم ہونے کی بنیادی وجہ ڈیجیٹل آلات کا غیر ضروری استعمال ہیں جس سے خاندان کے اندر میل ملاپ اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے میں کمی، جو لسانی، جذباتی اور ذہنی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سرگرمیوں (ہوم ورک، آرٹ، پڑھنے، وغیرہ) کے لیے وقف وقت میں کمی، نیند میں خلل ،جس سے توجہ، سیکھنے اور سمجھنے کے جذبات متاثر ہوتے ہیںاور ایک ایسی نوجواں نسل تیار ہورہی ہیں جو احمقانہ تفریح سے پریشان، زبان سے محروم، دنیا پر غور کرنے سے قاصر، کچھ نیا سوچنے اور کرنے سے بے فکر _ہے لیکن اپنی قسمت سے خوش ہیں۔
موبائل فونز کے زیادہ استعمال سے بچوں اور نوجوانوں کی دانشورانہ سرگرمیوں ‘ تخلیقی اور تخیلی سوچ حوصلہ میں کمی آتی ہیں ۔ یہ طرزِ عمل دماغ کو مکمل پھلنے پھولنے سے روکتی ہے اور ایک حد سے زیادہ اسکرینز کے سامنے بیٹھے رہنے والا طرز زندگی جسم کی نشوونما کے علاوہ دماغ کی پختگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بچے تعلیم اور مطالعے کی جانب بے ذوقی اور بے توجہی کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ زندگی اور زندگی میں آنے والے مسائل اور مشکلات سے بے نیاز اپنی دھن اور مستی میں ہوتے ہیں ۔بچوں کے دماغ کی ساخت اور نشوونما کے لیے سکرین دیکھنے کے مقابلے میں سکولی سرگرمیاں، اپنے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا , دانشورانہ سرگرمیاں، مطالعہ، آرٹ، کھیلوں سے متعلق سرگرمیاں بہت اہم ہیں۔ سکرین ہمارے بچوں کے دماغ کی نشوونما کو تبدیل کرتے ہیں اور اسے کمزور بناتی ہیں۔
موبائل فونز کے آمد سے جو ’ڈیجیٹل انقلاب‘ آیا ہوا ہے، اُسے روکنا نا ممکن ہے۔ لیکن بات یہ بھی سچ ہے کہ اگر آپ کا موبائل فون آپ کے بچے کے ہاتھوں میں آیا ہوا ہے۔ تو جان لو آپ نے اپنا لخت جگر سو فیصد کھو دیا ہے ۔ جب سکرین کسی بچے یا نوعمر کے ہاتھوں میں رکھی جاتی ہے تو سب اس کا نشیلا اثر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اوسطاً 2 سال کے بچے ایک دن میں تقریبا تین گھنٹے، 8 سال کے بچے تقریباً پانچ گھنٹے اور نوعمر سات گھنٹے سے زیادہ موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 18 سال کی عمر سے پہلے ہی ہمارے بچوں نے سکرینوں کے سامنے سکول کے 30 سال کے برابر وقت گزارا ہوگا یا ایک فل ٹائم کام کرنے والے شخص جتنا 16 سال میں کام کرتا ہے، اتنا وقت گزارا ہو گا۔ یہ پاگل پن اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔جتنی جلدی آپ انھیں سکرینوں کے سامنے لاتے ہیں، منفی اثرات اور بعد میں ضرورت سے زیادہ استعمال کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
والدین کے لیے ناگزیر ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے اسکرین ٹائم پر نگرانی رکھیں ۔ چھ سال کی عمر کے بچوں کو موبائل فون اور اسکرینز سے دور ہی رکھا جائے۔ سکرین ٹائم کا حساب رکھا جائے اور بچوں کی نیند پر سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ سکول جانے سے پہلے صبح کوئی سکرین نہیں، رات کو سونے سے پہلے یا جب آپ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں تو کوئی سکرین نہیں اور سب سے بڑھ کر بیڈروم میں کوئی سکرین نہیں ہونی چاہیے۔ آجکل کے بچوں کے پاس موبائل فون اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ہزار بہانے ہیں۔ بچوں کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی بہانے کو نظر انداز کریں۔
ضرورت ہے بچوں کو بات اچھے طریقے سے سمجھائی جائے۔ انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ سکرینیں دماغ کو نقصان پہنچاتی ہیں، نیند کو خراب کرتی ہیں، زبان کی نشوونما میں مداخلت کرتی ہیں، تعلیمی کارکردگی کو کمزور کرتی ہیں، توجہ کو متاثر کرتی ہیں، موٹاپے کا خطرہ بڑھاتی ہیں، آنکھوں کی بیماریاں بڑھاتی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اور ہاں! گھر کے بڑوں خاص طور پر والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ خود کے لیے بھی اسکرین ٹائم کم کریں ۔ اگر گھر کے بڑے خود ہر وقت سمارٹ فونز کے ساتھ جڑے ہوں تو ایسی صورت میں بچوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ سکرین ایک مسئلہ ہے۔ہم سب کو موجودہ نسل اور آنے والی نسلوں کی ذہانت اور فطانت کو بچانے کے لیے بحیثیت مجموعی سوچنے، سمجھنے، اور کام کرنے کی ضرورت ہیں۔
(رابطہ۔ 7006857283)
: [email protected]