پچھلے دوہفتے واد ی میں کسی بھی طور اطمیان بخش نہیں رہے ہیں کیونکہ ان دو ہفتوں میں ہوشربا انکشافات کے ذریعے ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیں منجمد گوشت کے نام پر یا ان کے ذریعے تیار کی گئی پکوانوں کے نام پر کیا کچھ کھلایاجارہا تھا۔اب جب آدمی یاد کرتا ہے کہ اُس نے آج تک اس طرح کے گوشت کی بنی ہوئی کون کون سی چیزیں کھائی ہیں ،تو الٹیاں آنے لگتی ہیں اورکلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔پوری وادی سے لیکر جموں صوبہ میں اس سڑے ہوئے گوشت کی موجودگی اور پھر برآمدگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ کوئی عمومی صحت عامہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی جانب سنجیدہ طور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ گوشت اور اس سے بنی گوشت کی اشیاء کا پھیلائو سرینگر یا جموں شہروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے پورے جموںوکشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور گائوں دیہات تک اس زہریلے دھندے سے اچھوتے نہیں رہے ہیں
ہم اب یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمیں کھلی جگہوں پر ٹنوںکے حساب سے یہ باسی اور سڑا ہوا گوشت ملتا ہے کیونکہ اسے ذخیرہ کرنے والے اب متعلقہ حکام کی کارروائی سے ڈرتے ہیں۔یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ اس یوٹی کے تقریباً ہر کونے تک پہنچ گیا ہے۔ اس وقت ہم صدمے کی حالت میں ہیں لیکن یہ صدمہ سنگین ہوتا جارہا ہے کیونکہ نت نئے انکشافات ہوتے چلے جارہے ہیں۔پہلے تو یہ کہاجارہا تھا کہ اس سڑے ہوئے اور باسی گوشت سے ہمارے ہوٹل اور ریستوران والے مختلف زیافتیں تیار کرتے تھے لیکن اب یہ ہوشربا انکشاف ہوا ہے کہ یہی سڑا ہوا گوشت وادی کے سبھی بیکری والوںکو بھی سپلائی ہوا کرتا تھا اور چکن اور مٹن کے نام پر بننے والی بیکری کی سبھی اشیاء میں اسی سڑے ہوئے گوشت کا استعمال ہوتا تھا۔اس طرح شاید ہی کوئی فرد رہا ہوگا ،جس نے یہ گوشت بیکری یا زیافتوں کی صورت میں نہ کھایاہو۔
فی الحال ہر کوئی فوڈ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ کے اقدامات کی تعریف کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات پر بھیانک بے چینی ہے کہ ہم نے کتنے مہینوں اور برسوںاس کا استعمال کیا ہو گا اور اس کا ہماری صحت پر کیا اثر پرا ہوگا؟۔ایک اور تشویش بھی ہے۔ اس موجودہ مہم کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ اس وقت ایسا ماحول ہے کہ کوئی باہر سے ایسی چیزیں درآمد کر کے یہاں ذخیرہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ کوئی بھی ان گوشت کی مصنوعات کو اپنی دکانوں میں ظاہر نہیں کر سکتا۔ لیکن جب ان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن سست ہو جائے گا تو کیا ہو گا؟۔
انسانی تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب امن و امان اپنا کنٹرول سخت کر لیتا ہے تو جرائم پیشہ عناصر اپنی پرانی عادتوں کا سہارا لینے کے بہتر طریقے سیکھتے ہیں۔ چونکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پس پردہ کوئی بہت بڑا مافیا ہے جو اس سپلائی کو اوپر چلا رہا ہے، اس لیے خطرہ ہے کہ وہ کچھ اور طریقوں سے بھی یہی کام جاری رکھیں ۔حکومت بالخصوص متعلقہ محکمے کا امتحان ہے کہ اپنی نگرانی کوکم نہ کریں۔ ایسے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہنا چاہیے۔ ملوث پائے جانے والوں کو سخت سزا دی جانی چاہئے۔ مجرموں کی معلومات کو ٹاپ لائن سپلائرز تک جمع کرنا ضروری ہے۔موجودہ کارروائی میں مجرموں کو منبع پر پکڑنا چاہئے۔ جہاں سے سامان جموں و کشمیر سے باہر درآمد کیا جا رہا ہے، جموں و کشمیر سے باہر کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس کا تعاقب کیا جانا چاہئے۔ اس مجرمانہ سرگرمی سے جڑے افراد کے نام منظر عام پر لائے جانے چاہئیں تاکہ وہ اس حد تک شرمندہ ہوں کہ سماجی تحفظ کا ایک بڑا سوال پیدا ہوجائے۔ایسے افراد کو کوئی رعایت دینے کی ضرورت نہیںہے بلکہ اُنہیں بے نقاب کرنا چاہئے تاکہ اُن کے ساتھ سماجی مقاطعہ کیا جائے۔
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی میٹنگ اور کلین پلیٹ مشن کے آغاز کو ان تمام باریک نکات پر غور کرنا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہمار ی یوٹی میں کہیں بھی کوئی بھی سڑا ہوا گوشت کسی پلیٹ میں نہ جائے۔ یہ حکومت اور سماج دونوں کیلئے امتحان کا لمحہ ہے۔ دونوں کو مل کر لوگوں کی زندگی اور صحت پر کسی بھی طرح کے حملے کے خلاف خود کا جائزہ لینے اور مستقل چوکسی کی حالت میں رہنے کی ضرورت ہے۔