مظفر حسین بیگ
ماہِ صیّام اپنے اختتامی ایام مبارکہ میں داخل ہوکے ایک انقلاب آفریں پیغام اپنے پیچھے چھوڑکے جارہاہے۔ جن مسجدوں کی دیواریں نمازیوں کے منتظر ہوا کرتی تھی ، آج اُن میں خوشی کے لمحات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ وہ بستیوں کی بستیاں جہاں بے جا شور شرابے کا عالم ہوا کرتا تھا، وہاں آج اسلامی معاشرے کے اثرات و ثمرات نمودار ہورہے ہیں۔ جن دلوں پر دنیاوی خواہشات کی حکمرانی تھی اور وہ کافی حد تک سنگ دل ہوئے تھے، مگر رمضان کی بدولت موم کی طرح ملائم ہوتےہوئے نظر آرہے ہیں۔ غرض کہ ہر طرح صبر وتحمل،پرہیز گاری، صوم وصلواۃ کی پابندی اورصدقات وخیرات کی ادائیگی کی خوشبومہک رہی ہے۔ ویسے انسانیت بھی اسی فضاکی متلاشی ہوا کرتی ہے ،اس کو رمضان المبارک کی ہی دین کہا جاسکتا ہے کہ ایک تو مسلمانوں کے اخلاق وآداب میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور دوسری طرف ان کے ذہن وقلوب پر کچھ اسطرح سایہ فگن ہوا ہےکہ ان میں سے کچھ فیصد زکواۃکی ادا ئیگی میں گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اگر چہ یہ کام داد تحسین کے لائق ہے مگر رمضان سال کے باقی مہینو ں بھی مسلسل تبدیلی اور مستقل مزاجی میں یقین رکھتا ہے۔
زکواۃ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ مگر ستم ظریفی دیکھیں کہ اپنوں کی غفلت شعاری اور غیروں کی ہوشیاری کس قدر ایک غور وفکر کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ امت مسلمہ میں سے اکثر لوگ اس کے تئیں عدم دلچسپی کے شکار ہوچکے ہیں جبکہ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے زکواۃ کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں مسلمان 300سے لیکر 500امریکی بِلین ڈالر سالانہ اداکرتے ہیں، اگر اس کا محض ایک فیصد بھی جنگوں اور قدرتی آفات سے بدحال ومتا ثرہ لوگوں کی امداد کی بازآبادکاری کے لئے فراہم کیا جاتاتو رقوم کی کمی،جوسالنہ 51بِلین امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے، کے بحران پر آسانی کے ساتھ قابو پایاجاسکتاہے اور یہی صورت حال وادی کشمیر کی بھی بنی ہوئی ہے کہ یہاں کے کُل صاحبانِ نصاب میں سے تقریباًپچیس فیصد افراد ہی باقاعدگی سے زکواۃ ادا کرتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے زکواۃ کے تئیں غفلت شعاری کی چادر اوڑھ لی ہے جب کہ مصیبت کے ایام میں ہمارے پاس صرف یہی ایک سرمایہ اور ہتھیار ہے، جس سے ہم کسی حد تک تنگ دست اور مفلوک الحال لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ ورنہ ’’آگ کے وقت کنواں کھودنے‘‘کی پالیسی عین مواقعے پر خود کشی کے مترادف ہے۔ دیکھا جائے تو یہ زمین بہت ہی زرخیز ہے، جس کے لیے کوشش اور جذبے کی ضرورت ہے۔ وادی کے ضلع بارہ مولہ کے ٹاون کے ایک فلاحی ادارے ’’ فلاح الدارین‘‘ کی مثال ہمارے لئے ایک نمونہ عمل ثابت ہوسکتی ہے، جس کو چند نوجوانوں نے بیس سال پہلے وجود میں لایا۔یہ مخلصانہ محنت اور مسلسل جدوجہد اور جذبہ ایثار کا ثمر ہے کہ ۸۳ ہزار کا بجٹ ۲۰۱۲ میں ایک کروڑ سے زیادہ تجاوز کر گیا ہے۔ انہوں نے ۲۰۲۵ء تک قصبے میں غربت کے خاتمے کا عزم کیا ہوا ہے۔ یہ وادی کے ایک ٹاون میں کام کا معمولی خاکہ ہے ،یہی جذبہ اگر اپنایاجائے تو عین قریب یہاں کو ئی لینے والا نہیں ملےگا۔اسی طرح سے یتیم فاوئڈیشن،یتیم خانہ اور سخاوت سنٹر کے علاوہ بھی بہت سارے فلاحی ادارے ریاستی سطح پر منظم طریقے پر یتیموں،بیواوں،محتاجوں اور سماج کے دیگر ضرورت مندوں کی فلاح وبہبود میں پیش پیش رہتے ہیں ۔
یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ زکواۃ سے ہماری عدم دلچسپی نے ہم کو اس قدر محتاج بنادیا ہے کہ ایک انسان کو دوسو روپیہ کی عوض دس دس با ر سوشل ویلفیر دفتروں اور بنکوں کےچکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ کیا ایسی ذلت،رسوائی اور وقت کا ضیاع اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہے؟ کیا ابوبکر صدیق ؓ نے مانعین زکواۃ کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا تھا ،کیا قرآن پاک میں نماز کے ساتھ اکثر جگہوں پر زکواۃ کا حکم نہیں دیا گیاہے، کیا ہماری وادی میں ایک سروے کے مطابق دو لاکھ سے زیادہ یتیم موجود نہیں ہیں، جو گزشتہ ۰۳برسوں کے دوران والدین سے محروم ہوگئے اوران میں ۷۳فیصدایسے یتیم بھی شامل ہیں جوماں اورباپ دونوں کی شفقت سے محروم ہوئے ہیں، کیا یہ حقیقت ہمارے سامنے نہیں ہے کہ صرف دس فیصد ہی یتیم خانوں کے اندر زندگی گزاررہے ہیں اور باقی ماند ہ یتیم بچوں کے بارے میں کوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں زندگی کے ایام کاٹ رہے ہیں؟ ایسی صورت حال ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ باہمی اور مسلکی اختلافات کو چھوڑ کے زکواۃکے اجتماعی تصور کے بارے میں کوئی ٹھوس پالیسی اختیار کی جائےاور یتیم خانوں کے ساتھ ساتھ بنیادی سطح پر اُن کی تعلیمی اورجسمانی پرورش کا اہتمام کیاجائے۔
رابط۔7006944475
[email protected]