زوال انسانیت کے پس منظر میں طلبِ آخرت فکر ِ امروز

شہباز رشید بہورو
ہرطرف مایوس کن حالات،گمراہ کن خیالات،شریر اخلاقیات اورخبیث عادات انسانیت کے وصف کو انسانوں کے اندر ہی دفن کر رہے ہیں ۔اس لئے آج کا انسان ایک جوالا مکھی بن کر اس زمین پر چلت پھرت کررہا ہے ۔مال کی محبت ،ریاکاری کا نشہ ،تکبر کی نمائش اور ہوس کی اقتدا آج کے انسان کے بنیادی مظاہر ہیں جن سے وہ اپنے آپ کی نمائندگی کررہا ہے ۔حیوانی تقاضوں کے سامنے انسان کا عاجز ہونا بس ایسا ہی جیسا جانوروں کا بھوسےکے سامنے بے قابوہونا ہے، اس طرح سے جانوروں اور انسانوں کے درمیان تفریق کرنامشکل بن چکا ہے ۔آخر کب تک انسان ہوس کی پیروی کرتے کرتے اپنے آپ کو ذلیل کرتا رہے گا ۔؟آخر کیونکر انسان اس قدر گر گیا ہے کہ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں تخریب کا سفیر بن چکا ہے ،ہاں مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ انسان پر ابلیس کا غلبہ اس قدر سخت ہے کہ بیچارہ اسی کا غلام بننے پر رضامند اور مطمئن ہے ۔ضمیر کا سودا ،ایمان کا سوادا،وقار کا سودا،حساسیت کا سودا،احساس و شعور کا سوادا، فہم وادراک کا سودا،آخر کب تک یہ انسانیت فروش انسان اس زمین پر پانچ  چھ فٹ کا جسم لے کر یہ سودے بازیاں کرتا رہے گا، حالانکہ قبر کی زیارت اس کا مقدراور خدا کے حضور حاضر ہونا اس کی منزل ہے ۔غفلت کے یہ سارے وار حضرت انسان کو خدا سے غافل کر چکے ہیں اور اسی ٖغفلت کی مدہوشی میں معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے ۔انسان کی سب سے بڑی ناکامی اس کا اپنے خالق سے غفلت برتنا ہے کیونکہ خدا کی یاد کے بغیر وہ صحیح روش نہیں پا سکتا ہے ۔انسان کے مادی وجود سے ابھرنے والے ہر سفلی  تقاضے کی تکمیل کے لئے یہ انسان جو مستعدی اور محویت دکھا رہا ہے ،اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روحانی وجود کے تقاضوں کی  اس کے ہاں سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے ۔حالانکہ انسان جس مادی وجود کی بقا اور خوشنودی کے لئے اپنا سب کچھ داو پر لگا کر یہ یکسر بھول رہا ہے کہ ایک دن یہ لاڈلا مادی وجود اسے دھوکہ دے کر کل من علیھا فان کی نذرکر دے گا ۔جب کہ انسان چاہتا بھی ہے کہ اسے دوام حاصل ہو ،اس کی عزت ،اس کی لذت ،اس کا مال ودولت ،اس کی حکومت ،اس کی چودھراہٹ اور اس کا مقام ومرتبہ سب کچھ دوام کامستحق بنے۔ لیکن وہ حقیقت کے بدلے صرف آرزؤں کا اسیر ہے ۔اس کی خواہشات اسے صرف دنیا کی رنگینیوں میں اُلجھا کے رکھ دیتی ہیں۔ حالانکہ ایک وقفہ اس کی حیاتِ فانی میں ایسا بھی آتا ہے کہ حقیقت اس کے سامنے بالکل عیاں ہوتی لیکن وہ اس وقت انسانی وجود کی ہر زندہ قوت سے معذور ہو گا ۔اس وقفہ حیات کے بعد نہ کوئی حکمراں ،نہ کوئی وزیر،نہ کوئی فلسفی ،نہ کوئی امیر اور نہ کوئی غریب اپنی آب بیتی بیان کر سکتا ہے ۔
فلسفیوں نے اپنے دماغ کی لذت کے لئے فلسفے تراشے،شاعروں نے اپنے دل کا بخار نکالنے کے لئے اشعار لکھے ،راہبوں نے فطرت کا مقابلہ کرنے کے لئے بیابانوں کی خاک چھانی ،حکمرانوں نے اپنی طاقت کو دکھانے کے لئے جنگیں لڑئیں ،قانون دانوں نے معاشرے میں نظم قائم کرنے کے لئے قوانین مرتب کئے اور سائنسدانوں نے تسخیر کائنات کے جذبے کے تحت حیران کن ایجادات کیں، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ کسی کی بھی لذت کی تکمیل نہ ہوسکی ۔نہ کسی کے دل کے ارمان پورے ہو سکے ،نہ کوئی فطرت کو مسخ کر سکا ،نہ کوئی حاکمِ کل بن سکا ،نہ کوئی معاشرے میں اپنے خود ساختہ نظریات کو دوام دے سکا اور نہ کوئی آفاق و انفس کی مطمئن بخش تسخیر کر پایا اور آخر کار سب کے سب اس دنیائے فانی سے ارمانوں کی ایک دنیا لے کر رخصت ہو گئے ۔اس لئے کامیاب وہی ہے جو آخرت کی دائمی کامیابی ،دائمی عزت، دائمی حکومت و دائمی شہرت اور دائمی مسرت کو پانے کےلئے اس دنیا میں فکر مند رہے ۔انکسار و تواضع کے ساتھ ایسی زندگی گذاریں کہ ہر حرکت و سکنت سے اللہ کے خوف وخشیت کا اثر نمایاں ہو ۔