اُس کربناک حادثے کے بعد اُس نے زندگی جینے کی کبھی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہ روز و شب، شام و صحر رِدائے درد اوڑھے گُم سُم رہتا تھا۔ اُس کو خموشیوں کے ساتھ اُنس تھا۔ اُس کی حرکات نرالی تھیں کبھی اچانک اُس کے منہ سے ’’ہے ربا‘‘ کی چیخ نکلتی تواُس کی آنکھوں میں آنسوئوں کے ریلے اُمڈ آتے اور کبھی زوردار قہقہے سے اُس کے پیلے دانت دکھائی دیتے تھے۔ اُس کی چلاہٹ پریشان کُن ہوتی تھی۔
اُس حادثے کو اب برابر پانچ سال بیت گئے تھے لیکن آج بھی یونس کے تن پہ وہی پرانے میلے پھٹے کپڑے ہیں، جو اُس نے تب پہن رکھے تھے جب وہ غمناک حادثہ پیش آیا تھا۔
دیکھا جائے تو یونس اُس حادثہ کو ہونی سے تعبیر کرسکتا تھا کیونکہ ہونی کو کوئی نہیں ٹال سکتا ہے… مگر وہ ایسا نہیں کرپایا… اُس حادثہ نے یونس کو جھنجوڑ کے رکھ دیا۔ حادثہ سے قبل یونس ایک ذمہ دار پڑھا لکھا تاجر تھا۔ اُس کے پاس ایک اچھا خاصا بزنس تھا۔ شہر کے مین چوک میں اُس کی کریانے کی دُکان کافی مشہور تھی۔ اُس دکان پر وہ پانچ لوگوں کو روزگار فراہم کرتا تھا۔یہ پانچوں اُس کی دُکان میںملازم تھے۔
رفیقہ اُس کی بیوی گھر کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اُس کی اکلوتی بیٹی ذینب نے ایک دینی مدرسے سے فراغت حاصل کی تھی۔ اُن کا ایک چھوٹا کنبہ خوشحال گھر تھا، جہاں آرام و آرائش کا ہر ایک سامان میسر تھا۔ لیکن کل کی کس کو خبر…!؟
اُس دن ذینب شام کو ننیہال سے اپنی کار میں واپس گھر آرہی تھی۔ راستے میں ٹریفک جام ہونے کے سبب ذینب کو گھر پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ ذینب اپنے محلے میں پہنچنے ہی والی تھی کہ دو سرپھرے اوباش جوانوں نے ذینب کو کار روکنے کا اشارہ کیا۔ ذینب نے کار کی رفتار دھیمی کردی اور کار روک کر اُن اوباش سرپھرے جوانوں سے یوں مخاطب ہوئی۔
’’دیکھئے میں تمہاری بہن جیسی ہوں، بہن کی عزت بھائی کو اپنی زندگی سے عزیز ہوتی ہے… بھائی بہن کی عزت کرتا ہے اُس کی خوشی و غم میں برابر کا شریک ہوتا ہے… تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم لوگ یہاں سے چُپ چاپ چلے جائو ورنہ…!‘‘
سرپھرے اوباش جوان پھر بھی اپنے حرکات سے باز نہیں آئے۔ خود کو بچانے کی کشمکش میں ذینب کے سر سے دوپٹہ گرگیا…
’’ارے! ہے کوئی…مجھے بچائو‘‘ ذینب زور سے چلائی۔ ذینب کی آواز سُن کر کچھ لوگ وہاں پر جمع ہوئے۔ ذینب نے پُرنم آنکھوں سے اُن کو سارا واقعہ سنایا۔ لوگوں کو جمع ہوتے دیکھ کر وہ اوباش موقع سے رفو چکر ہوگئے۔ لوگوں نے ذینب کو بحفاظت گھر تک پہنچایا۔
سر سے ڈوپٹہ سرکنے کا غم ذینب کو بار بار سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔ اُس نے اپنے ابو یونس کو رو رو کر ساری روداد سنائی۔ اپنی بیٹی کا حالِ زار سُن کر یونس کے ہاتھ خود بخود دعا کے لئے اُٹھے۔
’’اے خدا! یہ کیسا انصاف ہے…تمہاری دھرتی پر ہماری بیٹیوں کی عزت تار تار ہورہی ہے… یا اللہ! بنت حوا کی حفاظت کر…‘‘
ابو کی دعا سنکر بیٹی بے ہوش ہوکر فرش پر گِر پڑی۔ یونس نے آنسو پونچھ لئے اور فوراً ڈاکٹر کو فون کرکے گھر بلایا… جانچ کے بعد ڈاکٹر نے ذینب کو مردہ قرار دیا۔ گہرے صدمے سے ذینب کی حرکتِ قلب بند ہوئی تھی…!
بیٹی کی بے وقت موت نے باپ کی کمر توڑ دی۔ آناً فاناً اُس کی خوبصورت دُنیا اُجڑ گئی… اُس کے خواب اُس کی آنکھوں کے سامنے راکھ ہوگئے… اُس کی نگاہیںجم گئیں… ادراک کا دریچہ بند ہوا…!
برآمدے میں ذینب کی لاش ایک سفید چادر میں لپٹی ہوئی رکھی تھی۔ اُس کے ارد گرد گھیرا ڈالے نوجوان لڑکیاں زار و قطار رو رہی تھیں۔ گھر میں اندر ہر طرف عورتیں اور باہر مرد بھرے پڑے تھے۔ کچھ لوگ زار و قطار رو رہے تھے، کچھ سسکیاں لے رہے تھے، کچھ صبر کئے چُپ چاپ بیٹھے تھے اور کچھ ایسے موقعوں پر اُلٹی سیدھی باتیں کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے عادی اپنے کام میں کچھ اس طرح مصروف تھے…
’’کس نے سوچا تھا کہ بے چاری رفیقہ پر اس طرح اچانک غم کا ہمالہ ٹوٹ پڑے گا؟ ابھی جوان ہے درد کا یہ دائو رفیقہ کو اب اکیلا ہی کھیلنا ہوگا۔‘‘
اُس غمناک حادثے کے بعد یونس اب زندہ لاش کی طرح اپنے عالیشان بنگلے میں بے یارو مددگار پڑا ہے… بے چارہ پتھر کی طرح بے حس و حرکت… لب خاموش اور نگاہیں پتھرائی ہوئیں!
ایک مظلوم باپ کی حالتِ زار کو دیکھ کر فیضؔ کا یہ شعر سوچ کے کینواس پر بار بار اُبھر کر آتا ہے ؎
جِسم پر قید ہے، جذبات پر زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں
���
آزادی کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام